اتنی محبت ہے کہ گماں جیسی لگتی ہے
ماں جائی ہے لیکن ماں جیسی لگتی ہے
اُس کے ہونٹوں کی محراب دعاؤں والی
اُس کی خاموشی بھی اَذاں جیسی لگتی ہے
دل میں ٹھہری ہوئی ہے میرے بچپن ہی سے
جس کی محبت آبِ رواں جیسی لگتی ہے
جس نے میرے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھا تھا
اپنے دل اور اپنی جاں جیسی لگتی ہے
بنی ہوئی ہے ڈھال وہ میری خاطر حیدر
مِرے مخالف کو جو کماں جیسی لگتی ہے
٭٭٭