نہ کسی کے دَم، نہ عصا میں ہے
جو کمال تیری ادا میں ہے
اِسے کون ہے جو بُجھا سکے
یہ چراغ اپنی ہوا میں ہے
جو اثر ہے اُس کی نگاہ میں
نہ دوا میں ہے، نہ دعا میں ہے
جو مزہ ہے میرے سوال میں
کہاں اُس کے دستِ عطا میں ہے
مجھے ہر گنہ کی جزا ملی
وہ شرافتوں کی سزا میں ہے
نہ فلک پہ ہے نہ زمین پر
مِری رُوح جیسے خلا میں ہے
٭٭٭