میری دھرتی سے پرے، کوئی بلاتا ہے مجھے
کہکشاؤں کی عجب راہ دکھاتا ہے مجھے
چشمِ نَم کے وہ زمانے تو کبھی کے بیتے
لیکن اک تارا وہی قصے سناتا ہے مجھے
جس نے آمادہ کیا ترکِ تعلق کے لئے
اب وہی دل ہی کچوکے سے لگاتا ہے مجھے
ماں ! ترے بعد سے سورج ہے سوا نیزے پر
بس تری ممتا کا اک سایہ بچاتا ہے مجھے
اِس زمانے کے خداؤں نے بگاڑا ہے مگر
میرے اندر کا اک انسان بناتا ہے مجھے
کس وفا سے وہ ابھی تک ہے ستم پر قائم
کس محبت سے ابھی تک وہ جَلاتا ہے مجھے
صرف یہ عمرِ گریزاں ہی نہیں کرتی اُداس
میرا ہنستا ہوا بچپن بھی رُلاتا ہے مجھے
جانے کیا بات ہے اُس شخص کے دل میں حیدر
جو ابھی تک وہ بتا ہی نہیں پاتا ہے مجھے
٭٭٭