عشق میں اپنی ہی جب خاک اُڑا لی ہم نے
پھر وہی خاک ترے پیار پہ ڈالی ہم نے
ڈھنگ کا کام کوئی ہم سے کبھی ہو نہ سکا
یوں تو سرسوں بھی ہتھیلی پہ جَما لی ہم نے
خود بھی پہچان نہیں پاتے ہیں اپنی صورت
جانے کس روگ میں یہ شکل بنا لی ہم نے
وہ بھی انکار کا عادی نہ رہا تھا بے شک
کب کوئی اس کی تمناّ کبھی ٹالی ہم نے
وہ سمجھ دار ہے مطلب تو سمجھ جائے گا
بات آدھی ہی کہی، آدھی چھُپا لی ہم نے
کھیل رنگوں کا جو پھولوں سے سمجھ میں آیا
سیکھ لی خوشبو سے آوارہ خیالی ہم نے
جو دعا کرتے تھے اُلٹا ہی اثر ہوتا تھا
تیری چاہت کی دعا رب سے بچا لی ہم نے
یونہی تُک بندی نہیں کی ہے غزل میں حیدر
بھیڑ سے اپنی الگ راہ نکالی ہم نے
٭٭٭