یونہی دیکھا تھا جسے چشمِ تماشائی سے
اب نکلتا ہی نہیں رُوح کی گہرائی سے
اہلِ دنیا بھلا اِس رَمز کو کیسے سمجھیں
عشق رُسوا نہیں ہوتا کبھی رُسوائی سے
متن میں آپ کا ہی ذکر چلا آتا ہے
اچھا ہے بچ کے رہیں حاشیہ آرائی سے
آخری مرحلہ اِس کھیل کا رہتا ہے ابھی
خوش نہ ہو لشکرِ اعداء مِری پسپائی سے
جو رہِ اہلِ ملامت پہ چلا جاتا ہو
مت الجھنا کبھی ایسے کسی سودائی سے
جسم بھی اپنی جگہ زندہ حقیقت ہیں مگر
دل نہیں ملتے فقط جسموں کی یکجائی سے
مرحلے آئے تھے خوف اور گنہ کے پہلے
روشنی گیان کی پھر پھُوٹی تھی تنہائی سے
بے لحاظی کا کسے دُکھ نہیں ہوتا حیدر
ہم نے شکوہ نہ کیا پر کسی ہرجائی سے
٭٭٭