یوں تو کتنے ہی ہم نشین رہے
کون دل میں سدا مکین رہے
نشۂ حُسن میں رہے تم بھی
ہم بھی کب عشق کے امین رہے
اپنے ہی دل کے آستانے پر
آستاں بوس اب جبین رہے
آسماں کی کوئی نہیں پروا
میرے پَیروں تلے زمین رہے
پاس رہ کر بھی پاس تھے میرے
دور ہو کر بھی وہ قرِین رہے
کیا خبر کب سفر پہ چل نکلیں
اسپِ جاں پر ہمیشہ زِین رہے
جیسے اب چاہے تُو سلوک کرے
آج سے ہم ترے رہین رہے
بس تو پھر طے ہوا یہی حیدر
ہاتھ میں دنیا، دل میں دین رہے
٭٭٭