آج اُس نے سفید رنگ کا لانگ فراق دیب تن کر رکھا تھا، بالوں کو جُوڑے کی شکل میں اُنچا باندھا ہوا تھا اور دونوں کانوں والی سائڈوں سے ایک ایک لٹ نکال کر کرل کیا ہوا تھا ہلکے پھلکے میک اپ میں بھی وہ شہزادی لگ رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے کپڑوں کا گلابی رنگ اُسکہ چہرے پہ چڑھ گیا ہو۔ آج بھی کتن
ی نظریں اُسکہ حسین سراپا کا محبت سے جائزہ لے رہی تھیں شہریار بھی دور کھڑا یک ٹک اُسے ہی دیکھ رہا تھا اور اُسکی نظروں سے نین با ر بار کنفیوژ ہو رہی تھی، ہال میں ایک دم سے تالیوں کی گونج اُٹھی تھی لِنڈا اور بنٹی ایک دوسرے کہ بازو میں بازو ڈالے اندر داخل ہو رہے تھے لِنڈا پہ ٹوٹ کر روپ چڑھا تھا ایک ہاتھ میں گلاب پکڑے وہ بڑے اعتماد سے چلتی آ ری تھی بھرپور تالیوں اور سیٹیوں سے اُن دونوں کا استقبال کیا گیا
شادی کی رسم انجام پوئی تو سب نے اپنی اپنی جگہ پہ کھڑے کھڑے نئے جوڑے کو مبارکباد دی اور پھر سب کے اصرار پہ لِنڈا اور بنٹی نے خوبصورت ڈانس بھی پرفارم کیا
نین کو اکیلا پا کر شیری اُسکے قریب آیا اور ہلکی سی سرغوشی میں کہا
"لوکنگ بیوٹی فُل"۔۔۔۔ نین نے فوراً اُسکی طرف دیکھا اورتھوڑا ہٹ کر کھڑی ہو گئی
ویسے تم مجھسے اتنا ڈرتی کیوں ہو خُدا نخواستہ اتنی بُری شکل تو نہیں ہی اچھا خاصا ہینڈسم بندہ ہوں،، اور کتنی عجیب بات ہے نا جس پہ دنیا مرتی ہے وہ نین سکندر پہ مر مٹا ہے۔ وہ قدرے قریب ہو کر بولا ۔۔۔۔۔ دنیا تم پہ مرتی ہو گی پر نین سکندر۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں وہ ناک چڑھا کر بولی تھی لیکن دل مسلسل نفی کر رہا تھا۔
نین سکندر کیا چاہتی ہے یہ تو نین سکندر بھی اچھے سے جانتی ہے بس ماننا نہیں چاہتی، وہ بھی شہریار تھا کہاں ٹلنے والا تھا۔
مجھے تمہاری فضول باتوں میں کوئی دل چسپی نہیں لہذا اپنی باتیں اپنے پاس رکھو کہتے ہی وہ پلٹنے لگی تھی جب شیری نے زود سے اُسکی نازک کلائی پکڑی تھی
آوچ۔۔۔ نین کی ہلکی سی چیخ نکلی تھی شیری اُسکا ہاتھ تھام کر باہر لے آیا
"واہٹ دا ہیل چھوڑو میرا ہاتھ"۔۔۔ نین لال بھبھوکا چہرہ لیے غرائی تھی
وہ سامنے دیکھ رہی ہو ۔۔۔نین کی بات کا اثر لیے بغیر وہ سامنے دور کہیں اشارا کرتے ہوۓ بولا۔ نین نے اُسکی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا سامنے سفید رنگ کا گھوڑا کھڑا گھاس چر رہا تھا نین نے ناسمجھی سے شیری کو دیکھا کیا وہ اُسے یہ سفید گھوڑا دیکھانے لایا تھا۔۔۔۔۔ اُسنے دوبارہ سے گھوڑے کو دیکھا لیکن اس بار منظر بدلا تھا گھوڑا دوسری طرف گھاس چرنے لگا تو نین کو اپنا مجسمہ نظر آیا وہ ہوبرو نین کا ہی مجسمہ تھا جہاں وہ یونی میں بکس ہاتھ میں لیے کھڑی تھی اور کسی نے بڑی غورو فکر سے اسکامجسمہ بنایا تھا اُس نے بے یقینی سے شیری کو دیکھا تھا جو اب اُسکی طرف متوجہ ہو چکا تھا
یہ تو میں ہوں پر کس نے بنایا اتنا خوبصورت مجسمہ وہ واقعی خیران تھی فوراً آگے بھڑ کر مجسمے کو چھوا ۔۔ آنکھیں ہونٹ،ناک کان سب ہی تو پرفیکٹ تھا
جب جب تم سے بات کرنے کا دل کرتا ہے تو اسی سے کرتا ہوں اپنے دل کی ہر بات، جاتنی ہو یہ والی نین سکندد تم سے زیادہ اچھی ہے یہ نین صرف مجھے سنتی ہےسمجھتی ہے یہ نین سکندر میری محبت کو میری بے قراری کو سمجھتی ہے وہ اس وقت بولتا ہوا کسی معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا ،نین اب بھی اسی مجسمے کو دیکھ رہی تھی الفاظ اُسکے پاس تھے نہیں لہذا وہ خاموشی سے کبھی شیری اور کبھی مجسمے کو دیکھتی اور سوچتی یہ بندہ آخر کیا چیز ہے ہر طرح کا آرٹ آتا ہے اسے
کیا اب بھی تمہیں میری محبت کا یقین نہیں آیا؟وہ سر جھکاۓ ہی بولا تھا
شہریار۔۔۔۔ خشک ہونٹوں پہ زُبان پھیرتے ہوۓ اُس نے بولنا چاہا تھا جب کہ دل کہہ رہا تھا کہ آج اپنی محبت کا اقرار کر ہی ڈالو لیکن وقت کی زنجیریں اُسے اس اقدام سے روک رہی تھیں جبھی وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔۔ شہریار میں تمہاری محبت کی قدر کرتی ہوں لیکن مجھے تم سے کوئی محبت نہیں اور نا ہی میں ایسا کوئی دعوا کر سکتی ہوں میرے کچھ گولز ہیں جنیں میں نے پورا کرنا ہے میں یہاں پڑھنے آئی ہوں اپنے باپ دادا کا نام روشن کرنے، نا کہ ان چکروں میں پڑھنے۔۔۔دل کی اُمیدوں کو کُچل کر اُن کی حقیقت سے منہ موڑ کر نفی کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے اس بات کا احساس آج نین کو بخوبی ہوا تھا، اُسے اے۔ جے کا کہا گیا ایک ایک لفظ یاد تھا لہازا وہ اے۔ جے کی طرح جزبات کی رو میں بہہ کر کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی، اُس پہ بہت سی محبتوں کا قرض باقی تھا جسے اُس نے ایمانداری سے نبھانا تھا، وہ شہریار کی محبت میں پڑ کر اتنے سارے مان کیسے توڑ سکتی تھی۔اتنی محبتوں کا گلا کیسے گھونٹ سکتی تھی، اُسکہ پاپا کو اُس پہ ناز تھا فحر تھا پھر وہ اتنی خودغرض کیسے ہو سکتی تھی اُس فخر کو پشتاوے میں کیسے بدل سکتی تھی؟
نین! وہ مُڑنے لگی تھی جب شیری نے دھیرے سے پکارا تھا نین کہ قدم منجمند ہو گۓ۔۔۔۔ میری قسمت ایسی کیوں ہے؟ میں جس انسان سے محبت کرتا ہوں وہ مجھے چھوڑ کر کیوں چلا جاتا ہے، وہ کسی معصوم بچے کی طرح بول رہا تھا
نین نے قرب سے آنکھیں میچ لیں آنسوؤں کا گرم سیل رواں بن کر بہنے لگا
میں نے پاپا سے محبت کی پاپا چلے گۓ پھر موسیٰ آیا مجھے لگا میری جلتی تپتی زندگی میں کوئی ٹھنڈک کا احساس بن کر آگیا ہے لیکن وہ بھی چلا گیا، پھر تم میری زندگی میں چلی آئی تم باقی لڑکیوں کی نسبت بہت مختلف ہو تم سے محبت کرنے کا دل کرتا ہے، اور اب مجھے جب اس بات کا احساس ہو گیا ہے کی میری زندگی تمہارے بغیر ادھوری ہے نا مکمل ہے تو دیکھو تم بھی جا رہی ہو، کیا میں واقعی اس قابل نہیں کہ مجھے سے محبت کی جاۓ وہ نین کہ سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہوۓ بولا تھا اور پھر نین کی پلکوں سے آنسو چُن کر اپنی مُٹھی میں بند کر لیا
اور بولا۔۔۔ یہ آنکھیں صرف مسکرانے کے لیے بنی ہیں آنسو بہانے کے لیے نہیں۔۔ نین بغور اُس اُنچے لمبے وجیہہ مرد کو دیکھ رہی تھی جو شاید ہی کبھی کسی لڑکی کہ سامنے ایسے بےآواز رویا ہو گا، آج سے پہلے تک تو وہ صرف لڑکیوں کی معصوم فیلنگز کے ساتھ کھیلتا آیا تھا اور شاید نین نے آج اُن تمام ٹوٹے دلوں کا مداوا کر دیا تھا، نا چاہتے ہوۓ بھی اُسے اپنی محبت کا گلا دبانا پڑا اور شاید یہی اُس کہ لیے بہتر تھا۔دنیا کی سب سے بڑی محبت تو تمہارے پاس ہے شہریار شاید تم نے اُس محبت کی قدر نہیں کی اس وجہ سے ہر وہ انسان تم سے دور ہو جاتا ہے جسے تم محبت کرتے ہو، ایک بار اُس محبت کا بھرم رکھ کر دیکھو تمہیں تمہاری ساری محبتیں مل جائیں گی نین کا اشارا اے۔ جے کی طرف تھا۔ شیری نے سرعت سے اُسکی طرف دیکھا تھا اور پھر اسے پہلے نین چلی جاتی اُسکا ہاتھ پکڑ کر خود سے قریب کرتے ہوۓ بےبھاکی سے بولا تھا،نین سکندر وہ شہریار ہی کیا جو ہار مان جاۓ اب تک پیار سے سمجھا رہا تھا کہ شاید تم مان جاؤ لیکن تم تو مسلسل مجھے جلتے انگارے پہ چلنے پہ مجبور کر رہی ہو۔۔ یاد رکھنا اس انگارے پہ تمیں میرے ساتھ چلنا ہو گا، وہ ایک دم سے بدل کر پرانا شہریار بن گیا تھا، اڑیل، ضدی، بد لیخاظ، جانور۔ نین کہ لیے یہ سب غیر متوقع تھا وہ بے یقینی سےاُسے دیکھتے ہوۓ بولی، چھوڑو میرا ہاتھ تم جانور ہو اس رویے کی وجہ سے سب چھوڑ جاتے ہیں تمیں، بےبسی سے اُسکی آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے، تیزی سے ہاتھ چھڑواتے ہوۓ چوڑی ٹوٹ کر اُسکی کلائی میں چبھ گئی اور اُسکی نازک سفید کلائی سے سرخ بوندھیں رسنے لگیں، شیری نے اُسکی کلائی کو غور سے دیکھا تھا اسے پہلے کہ وہ آگے بھڑ کر اُسکی کلائی چھوتا، نین وہاں سے چلی گئی، شیری اُسکی پشت کو دیکھنے لگا اور پھر خود کو کوستا ہوا منظر سے ہٹ گیا
اندر کی جانب آؤ تو لِنڈا رخصت ہونے کو تیار کھڑی تھی سب سے ملنے کہ بعد پھولوں کا بکے نین کی طرف اُچھالتے ہوۓ زور سے بولی تھی آئی ہوپ یو ویل بی دا نیکسٹ برائڈ اور اُسکی بات پہ نین چینپ کر مسکرا دی اور شیری نے کن اکھیوں سے نین کو دیکھا تھا یہ بات نین نے بخوبی نوٹ کی تھی اور ناپسندیدگی سے رح پھیر لیا تھا۔
*****======*****
آج وہ پیرس کی سیر کو نکلی تھی جینز پہ لمبی قمیز پہنے بالوں کو حسبَ معمول کھلا چھوڑے گلے میں سٹول ڈالے پاکٹس میں ہاتھ ڈالے ڈیزنی لینڈ آئی تھی۔وہاں کا رش اور شورو گل اپنے عروج پہ تھا، ہر طرح رونک چہل پہل جاری تھی۔ ،،، وہ اپنی دھن میں چل رہی تھی جب تیز دھار والی روشنی اُسکی آنکھوں میں پڑی اُسنے فوراً اُس جانب دیکھا وہاں کسی نے سٹال لگایا ہوا تھا اور ویاں انتہائی خوبصورت مرعوب کر دینے والا سفید مخل نما کچھ تھا اور اُسی کی تیز چمک سے اُسکی آنکھیں چندھیا گئی تھیں وہ چلتی ہوئی قریب آئی اور اُس خوبصورت سے چھوٹے سے مخل کو ہاتھ میں اُٹھا لیا وہ واقعی میں خوبصورت تھا حیرت زدا کر دینے والا نین اُس خوبصورت مخل کو فوراً خرید لینا چاہتی تھی لیکن شاپ والے نے یہ کہہ کر کے وہ سیل ہو چکا ہے اُسکا دل توڑ دیا تھا، لاکھ منانے پر بھی وہ نا مانا نین نے زیادہ پیسوں کا لالچ بھی دیا لیکن شاید وہ بہت ایماندار تھا مان کہ نا دیا اور نین کو مجبوراً آگے بھڑنا پڑا۔۔۔ لیکن دل کہیں اُس مخل میں ہی رہ گیا تھا
وہ چلتے چلتے ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی اور ساتھ ساتھ خوبصورت مناظر کو موبائل میں محفوظ کر رہی تھی جبھی گُلابی پھولے ہوۓ گالوں والی بچی اُسکے قریب آئی اور سُرح پھولوں کا گلداستہ اُسکی طرف بڑھا دیا۔ نین نے ناسمجھی سے ہھولے گالوں والی بچی کو دیکھا اسے پہلے کہ وہ پوچھتی کہ کس نے دیۓ ہیں وہ بچی بھاگ گئی نین ارد گرد دیکھتے ہوۓ دوبارہ پھولوں کو دیکھنے لگی تازہ گلاب کہ پھول ہر طرف خوشبو بکھیر رہے تھے اور گلاب نین کی کمزوری تھے،وہ پھر سے آگے چلنے لگی آگے ایک اور بچی پھولوں کا گلداستہ لیے کھڑی تھی اور نین کو پھول پکڑاتے ہی وہ بھی بھاگ گئی، اس بار سفید پھول تھے، اور اسی طرح پھولوں کا سلسلہ سا شروع ہو گیا تھا نو گلداستے اُٹھاۓ ہوۓ ہو حیران سی کھڑی تھی، پہلی بار اُسنے سوچا تھا شاید وہ بچی غلطی سے گلداستہ اُسے تھما گئی تھی لیکن اب اُسے احساس ہوا تھا کہ وہ کوئی غلط فہمی نہیں تھی بلکہ کوئی مسلسل اُسکا تعاقب کر رہا تھا اور یہ پھول بھی تعاقب کرنے والے کے ہی بھیجے ہوۓ تھے،وہ ایک طرف بیٹھ گئی اور اب کی بار اُسے پھولوں کے اندر چھوٹا سا کارڈ بھی نظر آیا اُس نے وہ کارڈ کھولا تو اُس پہ بڑا سا ایس لکھا تھا نین ناسمجھی سے کارڈ کو اُپر نیچے سے دیکھنے لگی، پر وہاں صرف ایس ہی لکھا تھا، اسی طرح نین نے باقی کے۔ گلداستوں سے بھی کارڈ نکالے ہر کارڈ پہ ایک حرف لکھا گیا تھا پہلے تو اُسے سمجھ نہیں آئی پھر اُس نے سب کارڈز کو ترتیب دے کر رکھا تو فکرا مکمل ہو گیا تھا وہاں۔۔ سوری نین لکھا ہوا تھا، نین نے چاروں طرف نظریں گمائیں لیکن اُسکی جان پہچان والا کوئی نا تھا۔۔۔ پھر سے وہی پھولے گالوں والی بچی نین کہ پاس آئی اور ایک پیکٹ اُسکی طرف بڑھایا کر جانے لگی جبھی نین نے اُسے پکڑ لیا وہ سچ میں لُکا چھپی کہ کھیل سے تنگ آ گئی تھی اور پھر محبت سے اُس بچی سے پوچھا کہ یہ سب کون بھیج رہا ہے۔ پہلے تو چند لمحے وہ بچی نین کی آنکھوں میں دیکھتی رہی پھر اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے بیک سائڈ پہ لے آئی، اور پھر دور اشارا کرتے ہوۓ فرینچ میں کچھ بول کر دوبارہ غائب ہو گئی۔نین نے اُس جانب دیکھا تو کوئی کھڑا تھا اُسکی پُشت نین کی طرف تھی، نین قدم قدم چلنے لگی، موسم اچانک سے بگڑا تھا، تیز موسلا دار بارش شروع ہو گئی نین نے فوراً بچاؤ کیلیے جگہ تلاش کی اور پھر درخت کہ نیچے کھڑی ہو گئی جہاں وہ پھول بھیجنے والا کھڑا تھا، گیلے بالوں کی لٹوں کو کان کہ پیچھے اڑسا اور پھر اُسے مخاطب کیا، ایکسکیوزمی، پھول بھجوانے کا مقصد، مُڑنے والے کو دیکھ کر نین کو اہنا سوال انتہائی بچکانا لگا تھا، شیری اُسکے سامنے بازو سینے پہ باندھے کھڑا تھا
تم میرا پیچھا کر رہے ہو، ؟وہ سٹپٹا کر بولی تھی۔یہ جگہ تمہاری جاگیر نہیں نین سکندر جہاں کوئی اور آ نہیں سکتا، وہ بھی خاضر جواب تھا۔ تم نے ٹھیک کہا یہ جگہ میری جاگیر نہیں لیکن تم بھی سن لو میں بھی تمہاری جاگیر نہیں اور یوں پھول بھجوانے کا مقصد؟؟؟
مقصد صرف سوری کرنا تھا میں نے اُس دن تمہیں ہرٹ کیا تھا
یہ سہی ہے پہلے دُکھ دو بعد میں مرحم لگانے آ جاؤ واؤ شہریار۔۔ وہ طنزیہ بولی کر پلٹنے لگی لیکن شیری نے فوراً ہاتھ کھینچ کر اُسے خود سے قریب کیا، بارش بے زور برس رہی تھی، اور دو محبت کرنے والوں کا وجود بھیگ رہا تھا، تمام احساسات جاگ اُٹھے تھے، دل کی دھڑکنیں ایک دوسرے کہ ساتھ مل کر مدھم سُر بکھیر رہی تھیں،
میری محبت کی اتنی تذلیل نا کرو نین کہ باد میں تمہیں پچھتانے کا موقع بھی نا ملے۔ وہ درد سے بھری آنکھیں نین میں گاڑتے ہوۓ تندھی سے بولا تھا۔
پا لینے کا نام محبت نہیں ہوتا شہریار ملِک محبت تو بےمول ہوتی ہے محبت چھینا جھبٹی کا نام نہیں، محبت احساس مانگتی ہے، تم صرف محبت پا لینا چاہتے ہو، اپنے اندر احساس پیدا کرو شہریار ۔،وہ اُسکے بازوؤں میں منمنائی تھی لیکن لفظوں میں روب بلا کا تھا۔
مجھے تم سے محبت وقتی احساس کہ تخت نہیں ہوئی، میری محبت میں تمہیں تمہاری راضامندی کیساتھ پانے کا احساس موجود ہے، ہو سکتا ہے میرا طریقہ غلط ہو لیکن میری محبت کبھی غلط نہیں ہو سکتی نین سکندر، تمہیں پانا ہوتا یاں یہ سب ایک وقتی جزبہ کہ تخت ہوا ہوتا تو تمہیں کب کا حاصل کر چُکا ہوتا، لیکن میں نے ایسا کرنا تو دور ایسا کبھی سوچا بھی نہیں، تمہاری خیا دیکھ کر میری محبت تمہارے لیے کئی زیادہ بھڑ جاتی ہے، اور ایک دن ایسا آۓ گا جب تم خود میری محبت کو قبول کرو گئی ایک ایک لفظ کو چبا چبا کر ادا کیا اور پھر ایک جھٹکے سے نین کہ نازک سراپا کو خود سے دور کیا اور لمبے لمبے ڈاک بھرتا نین کو ہکا بکا چھوڑ کر نکل گیا۔
بہت بُرے ہو تم شہریار آئی ہیٹ یو شیری کہ لفظوں کا مفہوم سمجھتے ہوۓ وہ اُسکے پیچھے زور سے چلائی تھی۔،اور اُسکہ دیۓ گۓ پھولوں کو وہیں بارش کہ گندے پانی میں پھینک کر غُصے سے آگے بھڑ گئی۔ کتنے اچھے موڈ کہ سارتھ وہ گُھومنے آئی تھی لیکن شہریار کی تلخ باتوں نے اُسکا موڈ غارت کر دیا تھا اسلیے اب وہاں رُکنا نادارد تھا۔
****========****
پہلے سال کا نتیجہ نین کی سوچ کہ عین مطابق تھا، اپنی کلاس میں سب سے ہائیسٹ نمبر اُسکے تھے، جہاں کلاس کہ کچھ لوگ نین کو کنگریجولیٹ کر رہے تھے وہیں بہت سے کلاس فیلوز جو شروع دن سے نین کا تیز آئکیو دیکھ کر اُسے ایویں ہی ناپسند کرتے تھے آج بھی جل بھن کر سیاہ ہو رہے تھے،لیکن نین کو کب پروا تھی اُنکی جلن کی۔۔۔۔
دسمبر کی اُداس شامیں ایک بار پھر سے لوٹ آئی تھیں، کلاس کہ عقبی شیشوں سے بارش کی بوندھیں پھسل کر نیچے زمیں میں جزب ہو رہی تھیں، شیشوں کہ پار منظر دھند زدا تھا۔ہر چیز دھند میں لپٹی اپنی کہانی بیاں کر رہی تھی
کلاس سے فارغ ہو کر وہ باہر نکلی تھی جبھی لِنڈا کا مسکراتا وجود اُسے نظر آیا شادی کہ بعد سے وہ اور زیادہ خوبصورت لگنے لگی تھی چینی نقوش مزید نکھر گۓ تھے۔ نین اور لِنڈا محوگفتگو تھیں جبھی شیری کسی لڑکی کہ ساتھ خوشگپیوں میں مصروف اُسکی قمر میں بازو ڈالے اُن کہ پاس آ رُکا تھا۔ نین نے تیکھی نظروں سے دیکھ کر پہلو بدلا تھا، شیری نے بھی شوخ نظروں سے نین کہ بدلتے ثاترات بھانپے تھے، مقصد نین کو جلانے کا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو چکا تھا، نین کا سُرح پڑتا چہرہ دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ آگ برابر کی زور پہ جل اُٹھی ہے
ہاۓ لِنڈا کیسی ہو؟ مروتاً پوچا تھا
یس آئی ایم فائن لِنڈا جواباً مسکُرا کر بولی تھی۔ باۓ دا وے میٹ مائی اسپیشل فرینڈ پائیل، اسپیشل پہ زور دے کر بولا تھا۔ لِنڈا نے محبت سے ہاتھ آگے بڑھایا تھا جسے پائیل نے فوراً تھام لیا تھا
نین تم نہیں ملو گی، شرارت سے گویا ہوا، نین نے فوراً آنکھیں دیکھائیں تو شہریار مخظوظ ہوتا ہوا مسکُرایا تھا۔ نین ہیلو کہتے ہوۓ وہاں سے نکل گئی،اور شہریار کہ دل کو دھارس ملی تھی۔۔۔۔ محبت سے بنی آگ کی انگاری دونوں طرف برابر لگی تھی۔
****=====****
تم میری محبت مان کیوں نہیں لیتی لائبریری کی سیڑیاں اُترتی نین کا راستہ روک کر وہ کھڑا ہو گیا تھا۔
اور تم میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے وہ ڈرے بغیر بولی تھی، اور ویسے بھی اب اُسے شہریار سے ڈر نہیں لگتا تھا، ویسے تمہاری وہ اسپیشل فرینڈ پائیل نہیں ہے آج تمہارے ساتھ، کہیں چھوڑ تو نہیں گئی؟ طنز کہ تیر چلانا وہ سیکھ گئی تھی، شہریار اُس کہ قریب آ کر اُسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا، اوہ تو نین سکندر کو جیلیسی ہو رہی ہے، منہ کہ زاویے بگاڑتے ہوۓ کہا تھا
انہوں جیلس اور میں، تمہاری سوچ بس انہی کاموں تک رہ گئی ہے، گرون اپ شہریار، مجھے تم سے نا کل محبت تھی، نا آج ہے اور نا آئندہ کبھی ہو گی اس لیے اپنا ارادا اور راستہ دونوں بدل لو، تیکھے انداز میں کہہ دیا تھا لیکن دل کا کیا کرتی جو شہریار کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا لیکن قبول کرنے سے ڈرتا تھا، لڑکیوں کی محبت بھی کتنی حساس ہوتی ہے، دل کہ نہا کونوں میں چاہے جتنی مرضی محبت ہو ،لیکن کہنے سے ہمیشہ ڈرتی ہیں، آج کل کی کھوکلی محبتیں کہاں کسی کا بھرم قائم رکھتی ہیں،گو کہ شہریارکی محبت کھوکلی نہیں تھی یہ بات نین بہت اچھے سے جانتی تھی بس قبول کرنے سے ڈرتی تھی کہ کہیں اس محبت کی وجہ سےوہ اپنے پیاروں کی محبت سے محروم نا رہ جاۓ۔
وہ مُڑنے لگی تھی جب شیری پیچھے سے بولا تھا، تو پھر ٹھیک ہے نین تمہیں مجھ سے نفرت ہے نا؟ تو دیکھ لیتے ہیں میری محبت کہ آگے تمہاری نفرت کب تک ٹکی رہے گی،دیکھتے ہیں محبت کی جیت ہو گی یاں نفرت کی ہار،، چیلنجنگ انداز میں کہتا وہ پلٹ گیا تھا، اور نین اپنی قسمت پہ کھڑے کھڑے آنسو بہاتی چلی گی۔
*****=======*****
لِنڈا کہاں لے کر جا رہی ہو کچھ بتاؤ تو، نین مسلسل آنکھوں پہ بندھی پٹی کو چھوتے ہوۓ بول رہی تھی،
ویٹ کرو نین اتنی بےصبری کیوں ہو رہی ہو ابھی سب پتہ چل جاۓ گا لِنڈا اطمینان سے بولی تھی۔ اور پھر مقامی جگہ پہ پہنچ کر نین کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی، دھوپ کی تیز کرنوں سے اُسکی آنکھیں چندھیا گئیں اُسنے فوراً آنکھوں کہ آگے ہاتھ رکھ لیا، اور پھر شوروگل سے اُسنے سرعت سے آنکھیں کھولیں، ہیپی برتھ ڈے نین ہر طرف یہی شور تھا
چودہ فروری تاریخ ساز دن جہاں ہر کوئی اپنے پیار کا اظہار کرتا جہاں نۓ جوڑے اس دن کو بھرپور انداز میں سیلیبریٹ کرتے وہیی نین سکندر جوش و خروش سے اپنا برتھ ڈے مناتی تھی۔ ہوٹل گرینڈ کہ وسیع و عریز گراؤنڈ فلور کو خوبصورتی سے آراستہ کیا گیا تھا، اور وسط میں سٹیج بنایا گیا تھا اور ہر طرف سُرح اور سفید ہارٹ شیپ بلونز لگاۓ گۓ تھےاور سُہری ہارٹ شیپ کی بنی پتیاں لگائی گئیں تھیں سٹیج کہ بیچو بیچ خوبصورت روش بنائی گئی تھی جس کہ اُپر تھال کی شکل میں بڑی سی لوہے کی پتری بنی تھی جس پہ گلاب کی پتییاں چسپاں تھیں اور اُسکہ درمیاں نا زیادہ چھوٹا اور نا زیادہ بڑا ہول بنا ہوا تھا جس میں سے سورج کی کرنین نین کہ بالوں کو شہد زنگ بنا رہی تھیں ۔نین کی آنکھوں میں مارے خوشی کہ آنسو تہرنے لگے، منہ پہ ہاتھ رکھ کر وہ ابھی تک یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبی ہوئی تھی،پھر لِنڈا کا ہاتھ تھامیں روش پہ چلتی ہوئی سٹیج تک آئی تو تھال نما پتری سے سُرح گلاب کی پتیاں برسنے لگیں نین نے سر اُٹھا کر اُپر دیکھا جہاں سے ابھی تک گلاب کی پتیاں برس رہی تھیں ہر طرف گلاب کی مہک پھیل رہی تھی گلاب کی پتیاں نین کہ بالوں میں اٹکنے لگیں تھیں سٹیج کہ وسط میں ٹیبل پہ فیری ٹیل والا کیک سجا تھا۔،نین کو دوسرا جھٹکا کیک کو دیکھ کر لگا تھا اُسے فیری ٹیل کہ فیز میں رہنا اچھا لگتا تھا کہنے کو وہ بڑی ہو گئی تھی لیکن اپنی برتھ ڈے پہ وہ ہمیشہ فیری والا کیک ہی ماما کو کہہ کر بنوایا کرتی تھی، اور یہ بات اُسنے یہاں کبھی کسی کو نہیں بتائی تھی پھر یہ فیری کیک کس نے لایا۔ نین کیک کہ قریب پہنچی وہاں بڑا سا سمائلی فیس بنا ہوا تھا اور ساتھ ہیپی برتھ ڈے نین لَکھا تھا، ہر طرف شور تھا، کوئی بلونز کو پھاڑ رہا تھا اور بلونز کہ اندر سے سُنہری ہر طرف گر رہی تھی ہجوم تنا نہیں تھا لیکن شورگل بے انتہا کا تھا ۔۔ نین آنسو صاف کرتی لِنڈا سے لپٹ کر رو دی اور دل سے شکریہ ادا کرنے لگی کہ اُسکے اسپیشل ڈے کو اتنا خاص بنانے کہ لیے
شکریہ میرا نہیں بلکے اُسکا ادا کرو جب نے یہ سب اریجمنٹس سب ڈیکوریشن، ایوری تھنک کیا ہے میں تو مہمانِ خاص بن کر آئی ہوں، لنڈا نے نین کی غلط فہمی دور کرتے ہوۓ کہا تھا نین نے نا سمجھی سے لِنڈا کی طرف دیکھا تھا وہ اب تک یہی سمجھ رہی تھی کی یہ سب لِنڈا کا پلانن ہے۔ تو،،، تو پھر یہ سب کس نے کیا اُس نے فوراً پوچھا تھا۔ لِنڈا نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا تو نین نے فوراً مُڑ کر دیکھا تھا، جہاں شہریار گلابوں کا گلداستہ لیے کھڑا تھا، شہریار کو دیکھ کر نین کہ رہے سہے اوسان خطا ہو گۓ، وہ لڑکھڑائی تھی جبی لِنڈا نے اُسے تھام لیا۔۔۔۔۔
*****========*****