میں کینٹین جا رہی ہوں تم چلو گی ساتھ؟ لِنڈا نے آفر کی تھی۔
آآآآآآآ نہیں یار تم جاؤ مجھے آج کہ آج یہ اسائنمنٹ کمپلیٹ کر کہ سبمٹ کروانی ہے۔
اچھا کچھ کھاؤ گی؟
نو تھینکس۔۔۔نین نے مُسکرا کر کہا تو لِنڈا بھی مُسکرا کر پلٹ گئی
نین بھی اپنی بُکس اُٹھا کر لائبریری کی طرف چل دی۔
لائبریری کی سیڑھیاں چڑھتے وہ نوٹس بیگ میں ڈال رہی تھی جبھی عجلت میں اُپر سے نیچے آتے شہریار سے اُسکا ٹکراو ہوا تھا،نوٹس ہاتھوں سے چھوٹ کر ہوا میں لہرانے
لگے تھے اور بکس بھی گر گئی تھیں،اور ایک بار پھر سے
اس نے نین کو گرنے سے بچایا تھا،
وہ اُس کے مضبوط باروؤں کے حصار میں تھی،ایک پل کو دونوں کی نظریں ملی تھیں، نین نے نظریں جھکا دیں، اور خود کو اُس کے حصار سے چھڑوانے کے لیے چڑیا کی طرح پھڑپھڑانے لگی ۔، اور وہ جو اُسے اپنی پرسنل پراپرٹی سمجھ کر چھوڑنے کو تیار نہیں تھا،نین نے اپنی پوری قوت سے اُسے جھٹک کر دور کیا تھا اور وہ جو دیوانہ وار اُسے دیکھے جا رہا تھا اپنے حواسوں میں واپس لوٹ آیا
آر یو بلائنڈ؟ وہ غصے سے دھاڑی تھی۔
لسن اگر غلطی تمہاری نہیں تھی تو میری بھی نہیں تھی،اُس نے بھی نئی نئی دل میں پلتی محبت کو سائڈ پہ رکھ کر تُکا سا جواب دیا تھا،نین نے ناگواری سے اُسے دیکھا تھا، اور اپنی کتابیں اُٹھا کر سیڑھیاں چھڑنے لگی۔
وہ اُس کی پُشت کو دکھنے لگا جب تک کہ وہ غائب نہیں ہو گئی، پھر مُسکرا کر سیڑھیاں چھڑنے لگا ۔
لائبریری میں آ کر اُس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو سب سے آخر والی نشت پہ وہ بیٹھی تھی۔
وہ انتہائی شرافت سے کُرسی کھینچ کہ اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔
سنو بیٹھ جاؤ میں انسان ہی ہوں تم سے کچھ بات کرنی ہے،،، نین کو اُٹھتا دیکھ وہ بولا تھا، تو مجبوراً نین کو بیٹھنا پڑا،
کیا ہم اس بے وجہ کی چپکلش کو ختم کر کے دوست نہیں بن سکتے؟ شہریار نے بنا تمہید کہ کہا تھا۔
اُس دن ہمارا انٹروڈکشن ادھورا رہ گیا تھا، سو ، ہاۓ… آئی ایم شہریار ملک، ہاتھ آگے بڑھاتے ہوۓ محبت سے نین کو دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔
ویٹ ویٹ ،،، لِسن شہریار پہلے تم زبردستی میرے دُشمن بن گئے اور اب زبردستی دوست بننے کی کوشش کر رہے ہو۔ تمہاری رئیل سائڈ کون سی ہے،اور ایک بات اور میں دوستی اُنہی سے کرتی ہوں جنیں میں جانتی ہوں اور ٹرسٹ کرتی ہوں،،،، اسے پہلے کہ وہ اُٹھ کر نکل جاتی شہریار نے سختی سے اُس کا بازو پکڑ کر واپس بیٹھاتے ہوۓ کہا
میری بات ابھی ختم نہیں ہوں، کیوں نہیں کرنا چاہتی مجھ سے دوستی۔ہاں؟
شہریار پلیز میرا ہاتھ چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے،اپنی کلائی کو اُس کے مضبوط ہاتھ سے چھڑواتے ہوۓ وہ غصے سے بولی تھی،جبھی لائبریری میں موجود سب نے اُنہیں دیکھا تھا،اور تبھی مِس کلارا نے غصے بھری نظروں سے اُنہیں دیکھا تھا اور اسی وقت لائبریری سے نکل جانے کا اشارہ کیا تھا۔
شہریار کی گرفت ڈھیلی پڑی تو نین نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ آزاد کروایا اور بیگ اُٹھا کر باہر نکل گئی شہریار فوراً اُسکے پیچھے لپکا تھا۔
نین ،،، نین میری بات سنو،،، ایک بار پھر سے اُس کا نازک ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیتے ہوۓ جھٹکے سے اُسے اپنی طرف کھینچا تھا،اور وہ موم کی گُڑیا لڑھ کر اُس کے چوڑے شانے سے جا ٹکرائی، جو بھی ہوا تھا غیر ارادہ طور پہ ہوا تھا،وہ اُسکی اتنی قریب تھی کہ اُس کی تیز تیز چلتی سانسیں بھی اُسے سُنائی دے رہی تھیں اُسکے وجود سے اُٹھتی مہک وہ اپنے اندر اُتارنے لگا،جز بات تھے کہ بے قابو ہوتے جا رہے تھے، مُٹھی سے ریت کی طرح پھیسلتے جا رہے تھے،اور ایک منزل تھی جو میلوں دور کا سفر تہہ کرنے کہ بعد بھی ملنی تھی کہ نہیں کوئی پتہ نہیں تھا، کیونکہ اُس کے سامنے کھڑی بظاہر معصوم سی دکھنے والی اندر سے چٹان کی طرح مضبوط تھی وہی اُسکی منزل تھی کہنے کو وہ اُس کے بہت قریب تھی لیکن در خقیقت وہ اُتنی ہی دور تھی۔
اُس کی بے ترتیب تیز تیز چلتی دھڑکن کو سُنتے ہی نین بڑی سرعت سی پیچھے ہٹی تھی،ایک پل کو نظریں اُٹھا کر اُسکی بلی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
اُسکی آنکھوں میں عجیب سی کشش تھی،کچھ تھا اُس کی آنکھوں میں نین نے سمجھتے ہوۓ آنکھوں کا زاویہ بدلہ تھا اور آہستہ سے گویا ہوئی تھی
دیکھو شہریار، رشتے اور دوست زبردستی کی بنیاد پہ نہیں بناۓ جاتے،یہ رشتے اخلاقیات کی بنیاد پہ بنتے ہیں، لوگ زبردستی دشمن ضرور بن جاتے ہیں،لیکن دوست کبھی نہیں بن سکتے
نین سکندر ایک بات تو بتاؤ باتیں بہت اچھی کر لیتی ہو، لیکچرز بھی کافی اچھے دے لیتی ہو،تم اِسی یونیورسٹی میں پروفیسر بطور حاص کیوں نہیں لگ جاتی نین کی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ طنزیا کہا تھا۔
سُنو! نین مُڑنے لگی تھی جب اُسنے اُسکی کلائی تھام کر دوبارہ سے روکا تھا۔
شہریار ملک نام ہے میرا،میں لڑکیوں کہ پیچھے نہیں بلکہ لڑکیاں میرے پیچھے آتی ہیں،شوخی سے کالر جھاڑتے ہو کہا تھا۔
کتنی بڑی غلط فہمی میں جی رہے ہو تم شہریار ملک ، تمہارے پیچھے ٹینا،مینا،جینا،جیسی ہزاروں لڑکیاں آسکتی ہیں پر نین سکندر نہیں،ہر لڑکی نین سکندر نہیں ہوتی،اور تمہارے جیسےبہت سے میرے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔، تمہیں ان جیسی لڑکیوں کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن نین سکندر کو تم جیسوں کی ضرورت قطعاً نہیں ہے، لہذا تم اپنی غلط فہمی دور کرو تمہاری صیحت کہ لیے موزو رہے گا۔
نین سکندر نے پلٹ کر وار کیا تھا۔ شہریار کو حاصہ لاجواب کیا تھا،اُسے ہکابکا چھوڑ وہ آگے بڑھ گئی تھی۔ان لوگوں سے اور کچھ نا سہی لیکن پلٹ کر وار کرنا خوب سیکھ لیا تھا،نکچڑی نین سکندر نے
*****=====*****
ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ پیرس کی سب سے خوبصورت سٹریٹ کی طرف اتی نین سکندر خوبصورت مناظر کو کیمرے میں اُتارتی جا رہی تھی، جیزی سٹریٹ پیرس کی پانچ بہترین سٹریٹز میں سے ایک ہے، جو کہ میٹرو اسٹیشن کہ ساتھ ہی پائی جاتی ہے، شام ڈھلتے ہی جیزی سٹریٹ کی رونق شروع ہو جاتی تھی، ایک ہجوم سا بڑھنے لگتا تھا، پیرس کا سب سے کریزی ایٹموسفیئر کہا جاتا ہے جیزی سٹریٹ کو،جیزی سٹریٹ کہ نام سے بنا جیزی کلب جہاں شام ہوتے ہی لوگوں کی آمدورفت شُروع ہو جاتی تھی،موسیقی کی تیز آوازیں اور اُسں پہ تھرکنے والوں کا شور و گُل سب باہر تک سُنائی دیتا تھا۔کیوں کہ ابھی دن تھا تو لوگوں کا ہجوم شام کی نسبت قدرِ کم تھا۔
وہ لِنڈا کہ ساتھ آئی تھی، اےُ۔جے کی ناساز طبیعت کا پوری یونی کو معلوم تھا کہ وہ اکثر بیمار رہتی ہیں ،اب بھی وہ کافی دنوں سے یونی نہیں آئی تھیں،اور چونکہ اُنہوں نے نین کی بہت بار مدد کی تھی اس لیے نین اُن کی عیادت کو جانا چاہتی تھی اور بڑے دنوں کے بعد آج اُسے موقع ملا تھا اور وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی تھی لہازا اُسنے لِنڈا کہ ساتھ چلنے کا پلان بنایا اور آج وہ جیزی سٹریٹ میں موجود تھی۔
وہ آگے بھڑ رہی تھیں اے۔جے کا گھر اُن کی آنکھوں کہ سامنے تھا جب نین کو خیال آیا،لِنڈا اے۔جے کہ لیے فلاورز لینے ہیں آؤپہلے یہاں سے لیے لیں وسط میں بنی ہوئی بڑی سی فلاور شاپ کی طرف اشارا کرتے ہوۓ کہا تھا۔
تم چلو میں فلاورز لے کہ آتی ہوں، لِنڈا نے کہا تھا
نہیں ساتھ میں چلتے ہیں ناٰ میں اکیلے کیسے جاؤں۔
کم آن نین تم آگے بڑھو سامنے ہی تو ہے گھر اور ڈر کیسا اے۔جے تو بہت پیار کرتی ہیں تم سے ، میں دو منٹ میں آ جاؤں کہہ کر وہ جلدی سے آگے بڑھ گئی تو نین کو چاروناچار اکیلے جانا پڑا۔
سُست روئی سے چلتے ہوۓ وہ آگئے بڑھتی جا رہی تھی یہاں تک کہ اے۔جے کا گھر بلکُل اُس کہ مُقابل تھا،سفید چمکتے ماربل سے بنی سیڑھیاں چڑھتے وہ تھوڑی نروس ہو رئی تھی۔
آہستہ سے بیل کو دبایا اور کھڑی ہو گئی،تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھلا تھا،اور سامنے، خوشں شکل بیس بائیس سال کی دبلی پتلی سی لڑکی سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ نین کا بھرپور جائزہ لے رہی تھی،جیسے کہہ رہی ہو کون ہو تم؟ کیا چاہیے؟ کِسے ملنا ہے؟
اُسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر نین فوراً بولی تھی۔ میں اے۔جے سے ملنے آئی ہوں۔
لیکن اُس لڑکی کو کیا پتہ کہ اے۔جے کون ہے اور شاید اُسے انگریزی بھی نہیں آتی تھی اور فرینچ نین کو نہیں آتی تھی۔وہ لڑکی ہنیوز نین کو گُھور رہی تھی۔
نین نے اب کی بار علینا جہاں کہہ کا اندر کی طرف اشارہ کیا تھا،اور وہ چینی نقوش والی نین کو وہیں دروازہ پہ چھوڑ کر اندر کو لپکی تھی۔
تھوڑی دیر میں وہ واپس آئی تھی اور نین کو اندر آنے کا اشارا کیا نین اندر چلی آئی ، انتہائی خوبصورتی اور نزاکت سے سجایا گیا چھوٹا ہی سہی لیکن بہت خوبصورت گھر تھا۔نین کو لاؤنج میں بیٹھا کر وہ پھر سے غائب ہو گئی تھی۔
تھوڑی ہی میں اے۔جے سیڑھیاں اُترتی دِکھائی دیئں۔
نین۔۔! اوہ مائی چائلڈ تم آئی ہو،نین کو پیار سے گلے لگاتے ہوۓ کہا تھا۔ یقین جانو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے تمہیں اپنے گھر میں دیکھ کر، کھڑی کیوں ہو آؤ بیٹھو میرے پاس
اے۔جے کیسی طبیعت ہے اب آپکی، جب سے اے۔جے نین سے ملی تھی تب سے نین اکثر اے۔جے کہ پُر کشش چہرے میں ماما کا چہرہ شلاشتی تھی،اُسے ماما جیسی اُنست محسوس ہونے لگی تھی ۔
بلاشبہ اے۔جے بھی اُسے بہت محبت کرنے لگی تھیں۔
میں معافی چاہتی ہوں تمہیں تکلیف ہوئی، گائیو کو انگلش نہیں آتی وہ صرف فرینچ سمجھ اور بول سکتی ہے۔اے۔جے شرمندگی سے کہا تھا
اٹز اوکے اے۔جے، میں سمجھ گئی تھی آپ اپنا بتائیں کیسی طبیعت ہے آپکی؟
طبیعت ،،،، پہلے سے بہتر ہے، اب عُمر کا بھی تو فرق ہے نا اس لیے اکثر ہو جاتا ہے ایسا،اب تو میں یوز ٹو ہو گئی ہوں۔اے۔جے ایک زندہ دل عورت تھیں،تمام خالات اور مشکلات کا سامنا کرنے کہ بعد بھی وہ ڈٹ کر ہر آنے والی نئی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار تھیں۔
تم بیٹھوں میں تمہارے لیے کچھ بنانے کا کہہ کر آتی ہوں گائیو کو اور ساتھ ہی وہ اُٹھ کر اندر چلی گئیں۔
جب کچھ دیر گُزرنے پہ بھی اے۔جے نا آئیں تو نین اُٹھ کر انتہائی نفاست سے سجاۓ گئے گھر کو دیکھنے لگی وہاں لگی ہر چیر اپنے آپ میں بلا کی کشش رکھتی تھی دور سے نین کی نظر ایک پورٹریٹ پہ پڑی اُس پورٹریٹ پہ روتی ہوئی عورت کی تصویر بنی تھی،نین آہستہ سے چلتی ہوئی اُس پورٹریٹ کہ پاس آئی پر یہ کیا،پاس آتے ہی پورٹریٹ کا منظر بدل گیا تھا،اب روتے چہرے کی بجاۓ اُسی عورت کا ہستا مُسکاتا چہرہ تھا۔وہ واپس اُسی جگہ پہ دوبارہ گئی منظر ایک بار پھر سے ویسا ہو گیا تھا،اُداس روتا چہرہ،وہ دوبارہ آگے بڑی تھی مُسکاتا چہرہ اُسکے مقابل تھا،وہ تصویر ایک تھی لیکن اُسکی پہلو دو تھے اس پورٹریٹ نے نین کو کافی متاثر کیا تھا۔
نین آگے بڑھ کر اُسے چھونا چاہتی تھی اسے پہلے کہ وہ اپنی اس خواہش کو پورا کرتی پیچھے سے کِسی نے پوری قوت سے نین کی نازک کلائی پیچھے کی طرف موڑتے ہوۓ اُسے دیوار کہ ساتھ لگایا تھا،نین کی دبی دبی سی چیخ نکلی تھی، یہ عمل اتنا فوری تھا کہ اُسے سنمبھلنے کا موقع ہی نا مل سکا،دیوار سے لگے اُس نے آنکھیں سختی سی میچی ہوئی تھیں، اُس نے آہستہ سے آنکھیں کھولی تھیں اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے پہلے کہ وہ زوردار چیخ مارتی مُقابل نے فوراً اُسکی منہ پہ ہاتھ رکھ کر اُسے اس عمل سے روکا تھا۔
نین مسلسل بولنے کی کوشش کر ہی تھی لیکن بولنا نادارد تھا۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو،”؟ بلی آنکھوں” والا دبے دبے غصے سے بولا تھا، اے۔جے کو شکائت لگانے آئی ہو میری؟۔۔۔ آنکھوں میں غُصہ لیے وہ جم کہ کھڑا تھا۔نین نے بولنا چاہا تو اُس نے ہاتھ ہٹا دیا
نین نے اُکھڑا ہوا سانس بخال کیا تھا اور خود کو اُسکی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی تھی،”میں یہاں اے۔جے کی طبیعت معلوم کرنے آئی تھی کسی کی شکائت لگانے نہیں ، اور نین سکندر اپنے مصلے خود ہل کرنا جانتی ہے،چھوڑو مجھے فاگاڈ سیک ،،،، تم یہاں کیا کر رہے ہو، خیرت ہے اے۔جے نے تمہیں اپنے گھر میں گُھسنے کیسے دیا”،اُس کہ خصار سے خود کو چھڑوانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوۓ بولی تھی۔
ویسے اتنی معصوم ہو نہیں جتنا” پریٹینڈ کرتی ہو ورنہ میرے ہی گھر میں کھڑے ہو کر مجھے ہی یہاں کیا کر رہے ہو کہنے سے پہلے ایک بار تو ضرو سوچتی،”
الفاظ تھے یاں بوم ،اُس نے بے یقینی سے اُسے دیکھا تھا جو ابھی تک اُس کہ سامنے ڈٹ کہ کھڑا تھا،جیسے کہہ رہا ہو شکار خودی شکاری کہ پاس آگیا ہے،جیسے کہہ رہا ہو اتنی آسانی سے راستہ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
ت۔ت۔”تم جھوٹ بول رہے ہو یہ اے۔جے کا گھر ہے ابھی ملاقات ہوئی ہے میری اے۔جے سے، تو یہ گھر تمہارا کیسے ہو سکتا ہے”؟ وہ بے یقینی کی خالت میں بولی تھی۔
یہ گھر میرا اس لیے ہےکیونکہ” ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔”
وہ روکا تھا،اور نین نے دم سادھے اُسے دیکھا تھا۔
کیونکہ اے۔جے علینا جہاں میری” موم ہیں”،،، رغبت سے کہا تھا۔
نین سکندر پوری یونی واقف ہے اس” بات سے پھر تمہیں کیسے کچھ نا پتہ چل سکا؟ یاں پھر باقی لڑکیوں کی طرح میرا پیچھا کرتی کرتی میرے گھر تک آن پہنچی ہو،اُس دن تو بڑا لیکچر دے کہ گئی تھی کہ میرے پیچھے ٹینا مینا جینا جیسی لڑکیاں آتی ہیں،تو آج اپنے بارے میں کیا خیال ہے اب خود کو کس کیٹاگری میں شامل کرتی ہو،سیدھی سی بات ہے بھئی چوری سیدھے طریقے سے کرو یا اُلٹے سے چوری ،،،، چوری ہوتی ہے نین سکندر ، آخر تم مان کیوں نہیں لیتی کہ تم بھی باقی لڑکیوں”۔۔۔۔۔۔
شٹ اپ”۔۔۔اسے پہلے کہ وہ اپنی” بات پوری کرتا نین نے اُسکی بات کاٹی تھی۔
تم اپنے آپکو آخر سمجھتے کیا ہو، کیا ہو کیا چیز تم،تمہیں اگر صورت اچھی مل گئی ہے نا تو اُسکا شکر ادا کرو کیوں کہ سیرت کہ لہذ سے تم زیرو ہو، ۔ مجھے بلکُل بھی معلوم نہیں تھا،کہ تمہارا اور اے۔جے کا کیا تعلق ہے،میں یہاں اُن کی عیادت کو آئی تھی،ہٹو میرے راستے سے،وہ غُصے سے غرائی تھی۔لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا،اور پھر بولا، میں ایک بار کسی کا راستہ روک لوں تو پھر جب تک سامنے والے کا رُخ اپنی طرف موڑ کر اُسے اپنے رنگ میں رنگ نہیں لیتا تب تک راستہ نہیں چھوڑتا،نین کہ چہرے سے اُلجھی اُلجھی سی لٹ جو بار بار اُس کہ گُلابی گالوں کو چُھنے کی گُستاہی کر رہی تھی اُسے اُس کہ کان کہ پیچھے اڑستے ہوۓ کہا تھا، اُسے اب یہ گوارہ ہی کہاں تھا کہ اُس کہ علاوہ نین کو کوئی دیکھے یاں چھوۓ خوا وہ بالوں کی لٹ ہی کیوں نہ ہو،نین نے فوراً اُسکا ہاتھ جھٹک کر چہرے کا رُح ناپسندیدگی سے دوسری طرف پھیر لیا تھا۔اور وہ بغور نین کہ معصوم چہرے کا طواف کرتے ہوۓ سوچنے لگا تھا۔
اُسے آج احساس ہوا تھا،محبت وہ نہیں تھی جو دیر رات تک ،تیز دھار والی روشنیوں میں تیز موسیقی میں غیر لڑکیوں کی باہوں میں جھومتے ہوۓ گُزر جاتی تھی،اور محبت وہ بھی نہیں تھی کہ جب جب جس جس سے وہ محبت کہ دعوے کرتا تو اُسے وہ دعوے بے بنیاد لگتے، ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی اُسکی زندگی میں آئی جن سے ایک دو دن کہ خوشنوما احساس کہ زیرِ اثر رہنے کہ بعد اُکتاہٹ سی ہونے لگتی،محبت کتنی زور آور ہوتی ہے محبت کہ ہوتے ہی کیسے زندگی آندھیوں کی زد میں جکڑ جاتی ،یہ احساس اُسے آج ہوا تھا۔اسے نین سکندر سے وقتی جزبات کی بنیاد پہ محبت نہیں ہوئی تھی،اُسے تو بس محبت ہوئی تھی،پہلی بار اُسکا دل چاہا تھا،کہ وہ نین کو اپنے دل میں چھپا لے اُسے ہر ایک کی نظروں سے اُجھل رکھے،اُسکے علاوہ نین سکندر کو کوئی اور دیکھے تو دیکھے کیوں؟
اسے پہلے کہ وہ جزبات کی رو میں بہہ کر کوئی غلط حرکت کر گُزتا،اے۔جے کی آواز اُسے اپنی پشت سے سُنائی دی تھی اور وہ فوراً نین کہ سامنے سے ہٹ کر اُپر چلا گیا،نین کی جان میں جان آئی تھی
نین بیٹا کیا ہوا اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟ کیا شیری نے کچھ کہا تم سے؟ مجھے بتاؤ ابھی کان کھینچتی ہوں اُسکے ۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں اے۔جے۔۔۔ دراصل مجھے معلوم نہیں تھا کہ شہریار اور آپ کا کیا تعلق ہے،،،،،نین نے صوفے پہ ٹکتے ہوۓ کہا تھا۔
اوہ مجھے لگا تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا اے۔جے ٹیبل پہ بے شُمار لوازمات لگاتے ہوۓ بولیں تھیں،انداز بلکُل عام تھا۔
اُس دن اپ نے سب کو ڈانٹا تھا،اور شہریار نے روڈلی بات کی تھی آپسے،ماں کہ ساتھ ایسا اندازِ گفتگو وہ بھی دوستوں کہ سامنے،وہ ایسا کیوں ہے اے۔جے؟ نین نے جھجھکتے ہوۓ کہا تھا اور ساتھ ہی ہاتھوں کی لرزش دور کرنے کو کافی کا کپ تھام لیا۔
شیری کی کوئی غلطی نہیں اس میں، اُسے جو سیکھایا گیا ہے وہ ویسا ہی کر رہا ہے۔ جب سے شیری کہ ڈیڈ کی ڈیتھ ہوئی ہےتب سے ہی وہ ایسا باغی ہو گیا ہے اپنے باپ کی موت کا زمہ دار مجھے ٹھہراتا ہے، اے۔جے بےبسی اور دُکھ کی مِلی جُلی کیفیت کہ زیرِ اثر تھیں۔
نین فوراً اُٹھ کہ ان کہ پاس چلی آئی،اے۔جے پر وہ ایسا کیوں سوچتا ہے
اے۔ جے ایک نظر نین کو دیکھا اور پھر بولیں۔
میں بہت چھوٹی تھی جب میری امی ہمیں تنہا چھوڑ چلی گئیں، بابا نے بڑی محنت مشقت سے مجھے اور بھائی کو پروان چڑھایا، مجھے بچپن سے ہی باہر جانے کا شوق تھا وہاں کی پریکٹیکل لائف مجھے اٹریکٹ کرتی تھی، بی۔ اے مکمل ہوا تو میں نے ضد کر لی کہ مجھے باقی کی پڑھائی لندن جا کہ کرنی ہے، چھوٹی تھی بابا کی بے خد لاڈلی تھی، بابا کہ لاکھ منا کرنے پر بھی میں نا مانی تو بابا کو ماننا پڑا، بھائی نے بھی مجھے سپورٹ کیا، لندن آئی تو ملک جو کہ میرا کلاس فیلو تھا، سے محبت ہو گئی، میرے لیے سب کچھ بہت نیا تھا، مگر جو بھی تھا اچھا لگتا تھا، مجھے گئے ہوۓ ایک سال ہو گیا ہماری محبت کی داستان عروج پر تھی، محبت کی ننھی ننھی کونپلیں جہاں دلوں میں پھوٹ رہی تھیں، وہیں ایک دن بابا کی کال آئی انہوں نے میرا رشتہ اپنے دوست کہ بیٹے سے تہہ کر دیا اور فوراً واپس آنے کہ آڈرز جاری کر دیئے، مجھے میرے بابا سے بہت محبت تھی اس میں کوئی شک نہیں، ایک طرف بابا کی محبت دوسری طرف ملک کی والہانا محبت، میں نےپھر بھی واپسی کا فیصلہ کر لیا، لیکن ملک کی محبت نے میرے پیروں میں
محبت کی بیڑیاں ڈال دئیں۔ اُس نے کہا اگر میں اُسکی زندگی سے چلی گئی تو وہ خود کو ختم کر لے گا۔، جاتے جاتے میرے قدم تھم گئے میں باپ کی محبت پہ ملِک کی محبت کو ترجی دے بیٹھی،ہم دونوں نے کورٹ میرج کر لی، بابا سے جھوٹ کہا کہ ابھی نہیں آ سکتی فائنل اگزیمز شروع ہونے والے ہیں،شادی کہ بعد ہماری نئی محبت بھری زندگی شروع ہو گئی، میں خوش تھی، دو ماہ بعد بابا نے دوبارہ آنے کا کہا تو میں نے ہمت یکجا کر کہ انہیں اپنی شادی کا بتا دیا،بابا کو بہت گہرا سدمہ پہنچا تھا، بابا نے میرے سے ہر تعلق ختم کر دیا، اور پھر،،،، اے۔ جے نے بے دردی سے آسنو رگڑے اور دوبارہ بولنا اسٹارٹ کیا، اولاد کا دیا گیا دھوکا ماں باپ کب برداشت کرتے ہیں، میرے دئیے گئے دھوکے کو بھی بابا سہار نا پاۓ اور وہاں چلے گئیے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا، میں گئی تھی پاکستان آخری بار اپنے بابا کا آخری بار دیدار کرنے،بھائی نے مجھ سے بات تک نہیں کی، چار دن رہی مہمانوں کی طرح، اور چوتھے دن بھائی نے مجھے واپس لوٹ جانے کا کہا، بھابھی نے بہت سمجھایا لیکن میری سر کشی کی سزا تو مجھے ملنی تھی، میں زخمی دل کہ ساتھ واپس لوٹ آئی، زندگی ایک الگ ہی ڈگر پہ چل پڑی تھی یاں یہ کہہ لو میری بربادی کا وقت شروع ہو چکا تھا، ناکہیں قرار ملتا، نا کہیں سکون میسر تھا۔ پھر ایک دن ڈاکٹر نے مجھے شیری کہ آنے کی خوشخبری سنا کر میری ذات کو مکمل کر دیا، جہاں یہ خوشخبری ملی۔۔ وہیں ایک قیامت بھی گزری تھی۔
ملک پہ کسی نے چوری کا الزام لگوا کر اُسے نوکری سے نکلوا دیا، ملک بے قصور تھا لیکن کسی نے اُسکا یقین نہیں کیا، ایک بار نام خراب ہو جاۓ پھر دوبارہ سے عزت پانا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ میرے سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے، ملک ڈپریشن کا مریز بن گیا، مجھے جاب مل گئی میں نے اُسے بہت سمجھایا لیکن کون مرد یہ بردشت کرتا ہے کہ وہ گھر بیٹھا ہو اور اُسکی عورت اُسے کما کہ کھلاۓ چاہے مرد جتنا
بھی پریکٹیکل ہو جاۓلیکن مرد عورت کو کبھی خود پہ ترجی نہیں دیتا۔ ملک کا رویہ دن بہ دن بدتر ہوتا گیا گھر رہ رہ کر اُس کا دماغ شیطان کا گھر بنتا چلا گیا۔
مجھے لگا کہ بچے کی پیدائش کہ بعد اُسکے رویے میں سودھار آۓ گا لیکن میں غلط ثابت ہوئی، شیری کی پیدائش کہ بعد بھی ملک کا رویہ بدستور وہی رہا۔ اُسے نا بدلنا تھا اور نا وہ بدلا، جاب لیس ہونے نے اُسے پاگل کر دیا میری کامیابی اُسکی بربادی کا بائث بن رہی تھی،میں بھی جاب چھوڑ دیتی تو گھر کہ اخراجات کون دیکھتا، خالات دن بہ دن خراب ہو رہے تھے
پھر ہم لندن چھوڑ کر پیرس شفٹ ہو گئے لیکن شاید ملک کی قسمت کا ستارہ ڈوب چکا تھا یا شاید میری نافرمانی کی سزا ملک کو مل رہی تھی، زندگی کہاں سے کہاں جا رہی تھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، شیری سکول جانے لگا تھا، ملک گھر بیٹھے خالی دماغ لیے ہر وقت گالی گلوچ کرتا رہتا، شیری تھوڑا بڑا ہوا تو اُس نے اپنا زہر شیری کہ ننھے دماغ میں ڈالنا شروع کر دیا، نجانے وہ کیا کچھ سیکھاتا رہا شیری کو اور مجھے پتہ ہی نا چل سکا، دو دو جابز کو ایک ساتھ ہینڈل کرنا بہت مشکل تھا میرے لیے ایسے میں اپنی اکلوتی اولاد کو ٹائم نا دے پانا کون ماں چاہے گی ایسا؟ لیکن میں مجبور تھی، شیری آٹھ سال کا ہوا تو مجھے سوربونے یونیورسٹی سے اکائنٹینٹ کی جاب آفر ہوئی تو میں نے فوراً کر لی ،نام تو میں نے پا لیا لیکن میرا بیٹا میرے سے دور ہوتا چلا گیا،
گالی گلوچ کرنا گندے القابات کہنا ملک کا روز کا معمور بن گیا تھا اور خد تو یہ ہوئی کہ اُس نے شراب پینا اور نشے کی خالت میں مار پیٹ کرنا شروع کر دیا، اور ایسا ہی ایک دن تھا وہ نشے میں دھت تھا اور اُس نے بلا وجہ مار پیٹ شروع کر دی، میں نے اپنے بچاؤ کہ لیا اُسے دھکا دیا اُسکا سر دیوار سے لگا اور وہ نیچے گرا، خون میں لت پت تڑپ رہا تھا ،وہ جیسا بھی تھا مجھے اُسے بہت محبت تھی، اُسکی محبت میں بھی کوئی کھوٹ نہیں تھا لیکن وقت اور خالات نے اُسے توڑ دیا پتھر کا بنا دیا، اے۔ جے تکلیف سے بولی تھیں
: ۔ ، شیری نے جب یہ سارا منظر دیکھا تو اُسے لگا کہ میں نے اُسکے باپ کو مار ڈالا۔
وقت گُزرتا گیا آہستہ آہستہ شیری کہ رویے میں سودھار آنے لگا وہ مجھسے بات کرنے لگا۔لیکن آج بھی ایک کھینچاؤ سا ہے ہمارے رشتے میں وہ بات کرتا ہے لیکن اکھڑا اُکھڑا سا الگ تلگ سا رہتا ہے۔، میں نے اپنی ایک غلطی سے نجانے کتنے دل دکھاۓ ہیں، میرے بابامجھسے ناراض تھےاور ناراضگی لیے ہی وہ دنیا سےچلے گئے ایک بار اس بدنصیب بیٹی کو معاف کر دیتے۔۔۔۔ اے۔ جے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔ آنسو نین کی آنکھوں سے بھی چھلکے تھے۔
اے۔ جے بس کر دیں پلیز چُپ ہو جائیں جو ہو گیا اُسے بھولنا آسان نہیں مگر نا ممکن بھی تو نہیں۔ اے۔ جے آپ بہت بہادر ہیں پیار کرنا گناہ نہیں ہے لیکن پیار میں اپنوں کو دکھ دینا وہ غلط ہے آپ ایک بار اپنے بابا سے بات کرتی انہیں منانے کی کوشش کرتیں شاید وہ مان جاتے، ماں باپ اولاد کہ لیے کسی مہربان ساۓ کی طرح ہوتے ہیں،آپ ایک بار اُن سے کہہ کر تو دیکھتیں،نین اے۔ جے کہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی تھی۔
اے۔ جے نے پیار بھری نظروں سے نین کو دیکھا اور بولیں،کتنی سمجھدار ہو تم نین اتنی سی عمر میں اتنی سمجھداری والی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں۔
میرے بابا سے۔۔۔۔ میرے بابا ولڈ کے بیسٹ بابا ہیں انہوں نے مجھے کبھی کسی چیز سے منا نہیں کیا، بچپن سے ہی ماما سے زیادہ بابا کہ کلوز رہی ہوں اپنی ہر بات بابا سے شیئر کرتی ہوں بابا صرف بابا نہیں بلکے بہت اچھے دوست بھی ہیں۔بابا نے ایک بار کہا تھا کہ کبھی کوئی بات پریشان کرے تو بابا سمجھ کر نہیں دوست سمجھ کر شیئر کرنا کبھی کچھ مت چھپانا، میں دوست بن کر تمہاری مدد کروں گا اس لیے
میں بابا سے کبھی کچھ نہیں چُھپاتی ،نین نے دھیمے لہجے میں کہا تھا، اور اے۔ جے نے مُسکرا کر نین کو دیکھا تھا، کتنی پیاری اور سمجھدار تھی وہ۔
اوہ۔۔ سوری بیٹا جی میری باتوں میں تمہاری قافی ٹھنڈی ہو گئی روکو میں نئی قافی بنواتی ہوں کہہ کہ ساتھ ہی گائیو کو آواز لگا دی
نین کہ موبائل پہ لنڈا کالنگ لکھا آرہا تھا۔نین کع ایک دم سے لنڈا کی غیر موجودگی کا احساس ہوا تو فوراً کال اُٹھا کر بولی لنڈا تم کہاں رہ گئی ہو اب تک آئی کیوں نہیں
سوری نین مجھے اچانک یاد آیا کہ آج مجھے میری کزن کو ایرپورٹ سے رسیو کرنے جانا تھا، وہ میرا ویٹ کر رہی تھی اُسکی کال پہ مجھے فوری وہاں جانا پڑا۔ سو سوری جلدی میں تمہیں بتا بھی نہیں پائی۔ وہ واقعی میں شرمندہ معلوم ہوتی تھی۔
کوئی بات نہیں میں بھی اے۔ جے کی ساتھ باتوں میں لگ کہ بھول گئی تھی ابھی تمہاری کال آئی تو خیال آیا کہ تم ابھی تک نہں آئی اور ہاں تم اپنی کزن کو میرا ہیلو کہنا اور اب اُسے ٹائم دو میں ٹیکسی سے چلی جاؤں گئی اور پھر چند باتیں کر کہ فون رکھ دیا اور ساتھ ہی اُٹھ کھڑی ہوئی
اے۔ جے میں اب چلتی ہوں آئی ایم سوری میں آپکے لیے فلاورز بھی نا لا سکی لیکن آپ سے مل کر بہت اچھا لگا۔ تھوڑی دیر اور رُک جاتی کھانا آج ہمارے ساتھ کھاتی تو مجھے بہت اچھا لگتا اے۔ جے نے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا تھا،اے۔جے پھر کبھی سہی اُسنے بھی پیار سے دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔
رک جاؤ میں شیری سے کہتی ہوں وہ تمہیں چھوڑ آتا ہے، بارش بہت تیز ہو رہی ہے اور یہاں سے ٹیکسی ملنا مشکل ہو جاۓ گا، اور ہاں اسے بھی اپنا ہی گھر سمجھو اور چکر لگاتی رہنا اب۔ جاتے جاتے تاکید کی تھی، اور نین نے فوراً اثبات میں سر ہلایا تھا۔
نین منا کرنا چاہتی تھی لیکن اسے پہلے ہی وہ شیری کو بُلوا چکی تھیں۔چارو نا چار اُسے شیری کہ ساتھ جانا پڑا
وہ شیری کہ ساتھ فرنٹ سیٹ پہ براجمان تھی، باہر کا موسم دھلا دھلایا سا نظر آتا تھا بارش کی بوندیں تڑ تڑ برس رہی تھیں۔ گاری میں بہت خوبصورت مدھم سا میوزک چل رہا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے بےنیاز بیٹھے تھے، کبھی کبھی شیری ایک چور نظر ساتھ بیٹھی دشمنِ جانا پہ ڈال لیتا، اُسے دیکھتے ہی دل کہ تار مچل اُٹھتے تھے، دل چاہتا تھا اُسے اپنی نظروں کا قیدی بنا لے۔
شہریار آئی نو تم اتنے بُرے ہو نہیں جتنا خود کو پوز کرتے ہو، دشمنِ جانا نے پہلی بار خود مخاتب کیا تھا شیری نے ترچھی نظروں سے نین کو دیکھا تھا۔
زہے نصیب آج تم شیری کو خود مخاتب کر رہی ہو طبیعت تو ٹیھک ہے نا دیکھاؤ زرا اور فوراً آگے بھڑ کر اُسکا ماتھا چھوا تھا،جیسے نین نے فوراً جھٹکا تھا اور ناگورای سے شیرج کو دیکھا تھا، تم نہیں بدل سکتے جنگلی ہو جنگلی ہی رہو گے، نین کہ کہنے کی دیر تھی شیری نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی تھی نین کا سر سیدھا شیشے سے ہلکا سا ٹکرایا تھا۔
آر یو میڈ؟ وہ غصے سے بولی تھی
اُترو؟؟ باغیانہ انداز میں کہا تھا۔
واہٹ ؟ نین نے ناسمجھی سے اُسکی اور دیکھا تھا اور ایک بار باہر برستی تیز بارش کو؟
میں نے کہا نیچے اُترو اب کی بار سختی سے کہا تو نین فوراً نیچے اُتر گئی اُترتے ہی وہ پوری کی پوری بھیگ گئ تھی، سردی سے ٹھٹھرتا وجود سینے پہ بازوں باندھے کھڑی وہ شیری کو غصے سے دیکھ رہی تھی
ایک پل کو وہ رکا جھک کر بارش میں بھیگتی اپنی محبت کو دیکھا اور پھر ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا انا محبت پہ بھاری لگتی تھی۔
نین نے خیرت اور بے بسی سے اُسکی گاڑی کو آنکھوں سے اُجھل ہوتے دیکھا تھا، اتنا غرور، اتنی بےزتی، وہ غصے سے فٹ پاتھ پہ چلنے لگی بھیگے وجود گیلے کپڑوں میں چلنا ایک مشکل ترین کام تھا، کمینا، ذلیل کہیں کا۔۔۔۔۔ اگر راستے میں ہی چھوڑنا تھا تو پھر ہمسفر کیوں بنا تھا، دُم چھلا کہیں کا، بِلا کہیں کا، پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے، میرے سامنے آۓ گلہ دبا دوں، نین اُسے کوس رہی تھی اور تیز تیز قدموں سے چلتی جا رہی تھی دور دور تک کوئی ٹیکسی نظر نہیں آرہی تھی۔چلتے چلتے اُسکا سانس پھولنے لگا تو زرا سانس لینے کو رکی تھی جبھی اُسکے پیچھے کسی نے زور سے ہرن بجایا تھا اور نین اُچھل کر پیچھے کو مُڑی تھی، دُم چھلا گاڑی لیے موجود تھا، نین اثر لیے بنا چلنے لگی،اب کیوں آیا ہے، ایک بار بےذتی کر تو لی ہے ابھی بھی دل نہیں بھرا کیا؟ نین خود سے ہی بولتی چلی جا رہی تھی جب دوبارہ ہرن بجا، نین نے مڑ کر دیکھا اور چل کر اُسکی گاڑی کہ پاس آئی شیری نے سرعت سے شیشہ نیچے کیا تھا
کیا ہے؟ کیوں واپس آے ہو میں چلی جاؤں گئ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں،نین نے چھوٹتے ہی گھرکا تھا، جب کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس موسم میں اُسے ٹیکسی نہیں ملنے والی تھی اور تیز بارش میں پیدل چل کہ جانا سرا سر بےوقوفی ہے، لیکن اُس انا کا کیا کرتی جو آڑے آ رہی تھی۔؟
اپنی بات مکمل کر کہ وہ پھر سے چلنے لگی۔
شیری کو گاڑی سے خود ہی اُترنا پڑا لپک کر نین سکندر کا ہاتھ تھام لیا اور خود سے قریب کرتے ہوۓ بولا، گاڑی میں چل کر بیٹھو نین۔۔۔ بوندوں سے اٹےچہرے کو دیکھتے ہوۓ اپنائیت سے بولا تھا اور،ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے پہ آئی گیلی لٹوں کو پیچھے کیا تھا، وہ خود بھی پورا کا پورا بھیگ چکا تھا، نین نے خیرت سے مقابل کی آنکھوں میں دیکھا تھا، وہاں کوئی غصہ کوئی غرور نہیں تھا اُن آنکھوں میں درد تھا فکر تھی، خوف تھا، بےچینی تھی وہ تھوڑی دیر پہلے والا شیری تو نہیں لگتا تھا یہ تو کوئی اور شیری تھا، نین اُسکی آنکھوں میں اپنے لیے فکر واضع دیکھ سکتی تھی۔دونوں بارش میں کھڑے ساکت جسم و جاں کہ ساتھ مجسمہ روح لگ رہے تھے جنیں ارد گرد کہ مخول سے کوئی سروکار نا تھا، ایک دوسرے کو دیکھتے اپنی اپنی خودود کہ پیمانے ناپ رہے تھے۔
نین نے آہستہ سے اپنی کلائی چھڑوائی اور چلتی ہوئی گاڑی تک آئی اور دروازہ کھول کر بیٹھ گئی دل کی دھڑکن ایک دم سے شور کرنے لگی تھی نین نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھا تھا اور ایک نظر دور کھڑے بھیگتے شیری پہ ڈالی کر نظریں جھکا دیں، شیری آہستہ سے آ کر بیٹھا اور بنا اُسے مخاطب کیے زن سے گاڑی آگ
ے بڑھائی تھی، جہاں اب تک محبت کی لو سے ایک جل رہا تھا وہیں شاید انگاری دوسری طرف بھی جل اُتھی تھی۔۔۔۔