”میرے کردار میں خرابی‘ میری نیت میں کھوٹ کب محسوس ہوئی آپ کو؟ میری نگاہ جب بھی آپ کی جانب اٹھی عزت و احترام کے پردوں کے ساتھ اٹھی؟ بہت مواقع میسر آئے مجھے‘ اگر میری نیت بری ہوتی تو کون روک سکتا تھا مجھے‘ اس کی سوچ کے عامیانہ پن نے عمر کو بری طرح پریشان کر ڈالا تھا۔
”ثاقب کے بعد میری زندگی میں کوئی اور نہ آئے گا یہ میرا فیصلہ ہے۔“
”ثاقب؟ ہونہہ‘ مرکر وہ تمہیں نہیں مل سکا۔ اگر زندہ رہتا تو بھی تمہارا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے امریکہ میں شادی کی ہوئی تھی اور اپنی انگریز بیوی کی خواہش پر ہی وہ تمہیں بیوی کے روپ میں ملازمہ بنا کر لے جا رہا تھا۔ وہ اچھا آدمی نہیں تھا۔ میں اس کے بیک گراﺅنڈ سے واقف ہوں‘ کیا تم یہ جانتی ہو کہ شادی والے دن بھی اس نے ڈرنک کی ہوئی تھی اور وہ کار ایکسیڈنٹ اسی وجہ سے ہوا تھا۔“ شدت و جذبات میں وہ آپ سے تم پر آگیا تھا۔ اس کی باتوں کے جواب میں رابیکا کے چہرے پر پھیلتی یاسیت اس بات کی امین تھی کہ وہ ان سب باتوں سے آگاہ ہے اور یہ سچ تھا کہ ثاقب کے مرنے کے ایک ماہ بعد ساری حقیقت سے وہ رفتہ رفتہ واقف ہو گئی تھی جو عاطف کے طفیل اس تک پہنچی تھی۔
”یہ میرا مقدر ہے مجھے کسی سے شکوہ نہیں ہے۔ آپ برائے مہربانی دوبارہ مجھے ڈسٹرب کرنے مت آئیے گا‘ میں اپنے حال میں خوش ہوں۔ مجھے اب کسی کی رفاقت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ لفظ لفظ چبا کر بولی۔”میرے دل کے دروازے‘ میرے گھر کے دروازے وا رہیں گے‘ مجھے تمہاری آمد کا ہر گھڑی انتظار رہے گا‘ جب حال سے گھبرا جاﺅ مجھے پکار لینا‘ میں آجاﺅں گا۔“ وہ پر اعتماد لہجے میں کہہ کر چلا گیا۔
٭٭٭
ثمرہ اور عاطف ایک ہفتے کے لئے ٹھہرنے آئے تھے۔ گھر میں گہما گہمی پھیل گئی تھی۔ عمر کو یہاں سے شفٹ ہوئے کئی ماہ ہو چکے تھے اور اس دوران وہ بہت کم آیا تھا۔ اس کی آمد پر رابیکا ایک بار بھی سامنے نہ آئی تھی۔
وہ شام کو بہت سارے پھلوں سمیت آدھمکا تھا۔”عاقب بتا رہا تھا کہ آپ کسی کورس کے سلسلے میں ملک سے باہر جا رہے ہو؟“ چائے سے فارغ ہو کر فرح بیگم عمر سے مخاطب ہوئیں۔ ان کے علاوہ ثمرہ اور نمرہ بھی وہاں موجود تھیں۔ عاقب کپڑے چینج کرنے اپنے کمرے میں گیا تھا۔
”جی….ایک ماہ لگے گا آنٹی“
”اچھا ہے خوب ترقی کرو‘ دنیا میں نام روشن ہو….بیٹا مما‘ پپا کو کب یہاں بھیجو گے؟…. وہ دراصل نمرہ کےلئے اچھے گھرانوں کے کافی پروپوزل آئے ہوئے ہیں۔“ وہ سیدھے مطلب پر آتے ہوئے بولیں۔
”مما‘ پپا کا آنا مشکل ہے آپ میرے پیرنٹس سے پوچھ کر نمرہ کا پروپوزل منتخب کریں گی۔“ اس نے نمرہ کو دیکھ کر پوچھا جو گردن جھکا کر مسکرا رہی تھی۔
”ظاہر بات ہے عمر! آپ کے گھر والے ہی آپ کا پروپوزل لائیں گے۔“ ثمرہ حیرانگی سے بولی۔ فرح بیگم بھی سراسیمہ تھیں۔”یہ میں نے کب کہا کہ….نمرہ کو پروپوز کروں گا“ عمر کا انداز سا دہ و تعجب خیز تھا مگر ان کو اپنی سماعتوں میں دھماکے گونجتے محسوس ہوئے۔ نمرہ مسکرانا بھول گئی۔ دیوار کے پیچھے کپڑے پھیلاتی رابیکا بھی دم بخود رہ گئی تھی۔ وہاں تک آواز صاف جا رہی تھی۔
”مذاق…. مذاق کر رہے ہو بیٹا!“ مارے گھبراہٹ کے وہ بول نہ پا رہی تھیں۔
”میں ایسا چیپ مذاق کر سکتا ہوں آپ جیسی معزز ہستی کے ساتھ۔“
”اچھا….مذاق نہیں تو کیا ہے یہ….اتنے عرصے تک میری بچی کو ساتھ لئے گھومتے رہے‘ تحفے دیتے رہے۔ گھر میں بھی ساتھ ساتھ رہتے تھے اب کہتے ہو مذاق نہیں ہے اور اس سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتے‘ اتنے عرصے تک تم ہمارے عزت کے ساتھ کھیلتے رہے اب کہتے ہو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ غم و غصے سے ان کا برا حال تھا۔ ثمرہ بھی اسے گھور رہی تھی۔ نمرہ چپ بیٹھی ان کے چہرے دیکھ رہی تھی۔”نمرہ کو کبھی میں ان کی مرضی کے بغیر باہر لے کر نہیں گیا‘ نہ کبھی ہوٹلنگ کی ‘ نہ آﺅٹنگ کی‘ نمرہ اصرار کرتی تھیں کہ انہیں فلاں جگہ ڈراپ کر دو اور فلاں جگہ سے پک کر لو کیونکہ میں عاقب کی مصروفیت جانتا تھا۔ وہ نمرہ کو اتنا ٹائم نہیں دے پاتا۔اس لئے عاقب کی ذمہ داری میں نے سنبھالی اس گھر کا ایک فرد سمجھ کر نمرہ کو بہن سمجھ کر….“
”ارے بڑے آئے بہن سمجھنے والے‘ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں رہ کر میری آنکھوں میں دھول جھونکنے کی‘ میری بیٹی کو رسوا کرنے کی؟ احساس فراموش‘ آستین کے سانپ‘ کل تک تجھے میں سر آنکھوں پر بٹھاتی رہی جس کا صلہ تو یہ دے رہا ہے۔“ دو ماہ کی سخاوت و ریاضت پر مٹی پڑتے دیکھ کر فرح بیگم اپنی اوقات پر آگئی تھیں۔عاطف ٹھیک کہہ رہے تھے کہ عمر کی نیت درست نہیں ہے۔“ ثمرہ نے ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے حقارت سے کہا۔
”میں چلتا ہوں آنٹی! ابھی آپ غصے میں ہیں بعد میں آپ کو میری بات سمجھ میں آئے گی۔“ اتنا کچھ سننے کے باوجود اس کے چہرے پر غصے کی ایک شکن تک نہ ابھری تھی۔وہ اسی طرح پرسکون تھا اسے معلوم تھا بہت جلد اسے ایسی صورتحال سے دو چار ہونا پڑے گا۔ وہ دن آج آگیا تھا۔
”ہاں ہاں دفع ہو آئندہ کبھی اپنی منحوس شکل مت دکھانا“ بدلحاظی و بدمزاجی کے عروج پر تھیں وہ غصے میں سرخ ہو رہی تھیں۔
”اسٹاپ اٹ مما! بس کریں بہت بول گئیں آپ‘ عمر! تم کہیں نہیں جاﺅ گے۔“ عاقب وہاں آکر ماں سے مخاطب ہونے کے بعد عمر کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔”تمہیں معلوم نہیں ہے اس نے کتنا بڑا دھوکہ دیا ہے۔ ہمارے اعتماد و محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے میں اسے گھر میں گھسنے نہیں دوں گی۔“
خواہشوں کے شیش محل کی بکھری کرچیوں میں آرزوﺅں کے لہولہان وجود میں مقید فرح بیگم اس وقت بداخلاقی و بے مروتی کی ہر حد توڑ رہی تھیں۔
”فائدہ عمر نے نہیں ہم عمر سے اٹھاتے آرہے ہیں۔“
”عاقب پلیز چھوڑو ان باتوں کو مجھے جانے دو میں پھر آﺅں گا۔“ عمر نے نگاہوں سے منع کرتے ہوئے کہا مگر عاقب نے زبردستی اسے بٹھادیا۔
”نہیں عمر! اب اس کہانی کا ڈراپ سین ہونا چاہئے۔“
”عاقب! تم نہیں جانتے میں نے پہلے مما سے کہا تھا یہ رابیکا کی خاطر آتا ہے اور آج بھی کہہ رہی ہوں ‘ جس طرح اس نے آتے ہی اس نے اس منحوس پر توجہ دی تھی اسے ہمارے درمیان لا بٹھایا۔ اصل میں بات یہ تھی یہ اسی کی خاطر آتا تھا۔“ ثمرہ بھی انگارے چبانے لگی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی! عمر کو میں نے اسی نیک مقصد کے لئے بلایا تھا۔“”کیا…. کیا مطلب ہے تمہارا؟ وہ تینوں بیک وقت چونکی تھیں۔ دیوار کے پیچھے رابیکا متوحش سی بیٹھتی چلی گئی۔
”اب آپ میری باتیں بالکل خاموشی سے سنیں گی۔ آپ کے ظلم و ستم جب حد سے بڑھ گئے پھر آپ نے بلاوجہ بھابی پر یہ الزام لگانے شروع کر دئیے کہ وہ…. مجھ سے تعلق بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مجھے خراب کرنا چاہتی ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ میں آپ کی زیادتیوں پر ان کی حمایت کیا کرتا تھا۔ ایسے گھٹیا الزام لگا کر آپ نے ان کو ہی نہیں مجھے بھی اپنی نظروں سے گرا دیا ‘ بہت سوچ کر میں نے عمر سے تمام صورتحال ڈسکس کی اور عمر نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ وہ ایسی ہی لڑکی کی تلاش میں تھا جو اعلیٰ اخلاق اور بہترین کردارکی مالک ہو کیونکہ اس کی ممی ایک بے حد سادہ پر خلوص طبیعت کی مالک ہیں۔ ان کی ہم مزاج لڑکی بہو بن جائے گی تو گھر جنت بن جائے گا۔“ میں نے کہا پہلے کچھ دن یہاں آکر رہو ان کو دیکھو‘ پرکھو پھر بات آگے بڑھاﺅں اور اس طرح بات آگے بڑھتی چلی گئی۔ ویسے بھی عمر رابیکا کو بنا دیکھے پسند کر چکا تھا اور اگلے ہفتے انکل‘ آنٹی آرہے ہیں۔ پروپوزل لے کر اور ساتھ ہی میں ان کی شادی کر دوں گا۔“ عاقب دھماکے پر دھماکے کر رہا تھا۔
”سب سے پہلے تو تو نے ہی اپنے گھر میں نقب لگائی۔ تجھے اس غیر کی اتنی فکر اور اپنی بہن کی بالکل فکر نہیں ہے۔“ ان کی آواز میں شکستگی تھی۔
”میری بہن اپنی فکر خود کرنے والی ہے۔“اس نے طنزیہ کہتے اور نمرہ کو ملامت سے دیکھتے ہوئے کہا جس نے گھبرا کر سرجھکا لیا۔
”اس دور کی کچھ بے راہ رو لڑکیوں کی طرح اس نے بھی کئی دوستیاں پالی ہوئی تھیں جن میں سے اکرم نامی لڑکے کے ساتھ یہ اس حد تک جا چکی تھی کہ اگر عمر نہ آجاتا تو یہ کورٹ میرج کر چکی ہوتی۔“ اس کے لہجے میں تپش تھی۔
”بکواس مت کرو‘ بے غیرت! بہن پر الزام لگاتے ہوئے شرم نہیں آتی۔“
”بے غیرت تو ہوں جو اتنا جاننے کے باوجود اسے زندہ چھوڑ دیا ہے۔ اس خوف سے کہ جوان بہن کی ایسی موت بھی رسوائی بن جاتی ہے۔ لوگوں کو کیا بتاﺅں گا کہ کیوں مارا اپنی بہن کو‘ لوگ ایسی باتیں بنا بتائے جان جاتے ہیں۔“نمرہ رونے لگی تھی عمر کو اس دوران بیٹھنا برا لگ رہا تھا مگر عاقب کے ہاتھ کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی۔
”اکرم آیا تھا میرے پاس اسی نے یہ سب بتا دیا۔ اچھا لڑکا ہے وہ‘ سب جاننے کے باوجود ابھی بھی اس سے شادی کرنے کو تیار ہے‘ میں نے کہہ دیا ہے وہ اپنے گھر والوں کو بھیجے میں جلد از جلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔“
”یہ سب اس منحوس کی وجہ سے ہے اور تم سمجھ رہے ہو میں اس کی شادی عمر سے ہونے دوں گی؟ اسے عیش کرنے دوں گی؟ میرے بیٹے کو مار کر وہ….“
”فضول بات مت کریں مما! بھائی کو اسی طرح جانا تھا کس نے کہا تھا ان سے ڈرنک کر کے ڈرائیونگ کریں؟ پھر وہ رابیکا کو کون سا سکھ و خوشی دینے والے تھے۔ وہ بیوی کے روپ میں ایک محکوم‘ ایک ملازمہ لے کر جانا چاہتے تھے‘ جوان کے ساتھیوں کی‘ ان کی خدمت کرے مفت کی۔“”عاقب…. عاقب! شرم نہیں آتی تمہیں بھائی کے متعلق ایسی نازیبا گفتگو کرتے ہوئے۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ کس نے کان بھرے ہیں تمہارے؟“
نمرہ اندر چلی گئی تھی ثمرہ غصے سے چیخ کر بولی تھی۔
”رہنے دیجئے آپی! سب جان بوجھ کر انجان بننا اچھا نہیں لگتا‘ ثاقب بھائی کی عیاشیوں و شاہ خرچیوں نے ہماری عزت مٹی میں ملادی ہوتی اگر عمر بڑھ کر مالی سہارا نہ دیتا۔“
”میں نے کہا تھا اس موضو ع پر کوئی بات نہ ہوگی۔“ عمر سختی سے بولا۔
”کب تک چھپاﺅں گا؟ تمہارے احسانوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ میں….“
”پلیز یار! دوستوں میں کوئی احسان نہیں ہوتا۔“ اس ن ے خفگی سے کہا تھا۔”
مما ! آپ لوگوں کو جو درس دیتی ہیں کبھی خلوص نیت سے ان پر خود بھی عمل پیرا ہوتیں تو یہ کچھ نہ ہوتا جو آپ کی ناک کے نیچے ہوتا رہا اور آپ بے خبر رہیں‘ بھابی کے سر پر آپ پیار سے ہاتھ رکھ دیتیں تو وہ اسی طرح آپ کی خدمت کرتیں مگر آپ کے اعمال نامے میں نیکیوں کا اور ان دعاﺅں کا اضافہ ہو جاتا جو ان کے دل سے نکلتیں اور لوگ آپ کی عزت اسی طرح کرتے جیسے آپ کے سامنے کرتے ہیں ورنہ پیچھے آپ کو بہت کچھ کہتے ہیں کیونکہ کام کوئی بھی ہو پہلے ہمیں مثال بننا پڑتا ہے۔ جب لوگ عمل پیرا ہوتے ہیں“ عاقب کا ایک ایک لفظ ان کے ضمیر پر نشتر بن کر لگ رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر قبل بڑے بڑے تکبرانہ جملے بولنے والی فرح بیگم گم سم سی ہو گئی تھیں۔ عاقب نے آئینے میں ان کا عکس دکھا کر انہیں شرمسار و نادم کر ڈالا
”ثمرہ آپی! آپ کی یہی کوشش ہوتی ہے کسی طرح بھابی کو یہاں سے نکال دیا جائے تاکہ آپ اپنے شوہر کی طرف سے بے فکر ہو سکیں۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے وہ ان کو ورغلانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں اس دن آپ نے بھی سنی تھیں ان کی باتیں۔ پھر آپ ان کو سمجھانے کے بجائے بھابی کی دشمن بن رہیں۔“جب نیتوں میں خلوص کی چاشنی ایثار قربانی کے جذبے شامل ہو جائیں تو انسان‘ انسانیت کی معراج کو پا لیتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے صرف اپنا محاسبہ و ضمیر کی صداپر لبیک کہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر سنبھلتے ہیں اور کچھ لوگ گر کر۔ فرح بیگم کا تعلق بھی گر کر سنبھلنے والوں میں سے تھا۔ وہ بہت زبردست چوٹ لگنے کے بعد یہ سمجھ پائیں کہ دوسروں کی اصلاح سے قبل اپنی اصلاح ضروری ہے۔ اصل تبلیغ وہ ہے کہ لوگ آپ سے متاثر ہو کر مذہبی طور اطوار اپنائیں۔ آپ کسی کو کہنے کی نہیں بننے کی ترغیب دیں۔ نیکی کی خوشبو دیر سے پھیلتی ہے مگر پائیدار ہوتی ہے۔ وہ جان گئی تھیں۔ اپنے مالک حقیقی سے معاف مانگنے کے بعد وہ رابیکا سے بھی معافی مانگ چکی تھیں۔ رابیکا جیسی لڑکی انہیں کیونکر نہ معاف کرتی وہ انہیں معاف کر چکی تھی۔ اب اس کی نگاہ میں نمرہ کے برابر تھی جو آج کل اپنے جہیز کی تیاریوں میں مگن تھی۔ فرح بیگم اکرم کے گھر والوں کو شادی کی ڈیٹ دے چکی تھیں۔ رابیکا کے منع کرنے پر عمر نے اپنے پیرنٹس کو نہیں بلوایا تھا۔”رابی! عمر اچھا لڑکا ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو ایک ہسبنڈ میں ہونی چاہئیں۔ کل تک میری خواہش تھی وہ نمرہ کا نصیب ہو مگر آج میری آرزو ہے وہ تمہارا مقدر بنے‘ تمہاراانکار بے معنی ہے۔ میں چاہتی ہوں۔ نمرہ اور تمہارے فرض سے ایک ساتھ سبکدوش ہو کر حج پر جاﺅں۔“
وہ ملائمت و پیار سے اس سے مخاطب ہوئی تھیں۔
”آنٹی! میں نہیں چاہتی کل عمر کو لوگ جتائیں کہ انہوں نے ایک بیوہ سے شادی کی ہے۔ ان کو لڑکیوں کی کمی نہیں ہے میرا دل نہیں مانتا۔‘’‘
”لوگوں کی پروا مت کرو۔ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں بیوہ ہوئیں تو کیا ہوا تم کنواری لڑکی ہو۔“ وہ کافی دیر تک اسے سمجھاتی رہیں پھر اس کے خوف کے متعلق عمر کو بھی بتا دیا تھا۔ وہ ان کی پرمیشن سے اس کے کمرے میں آگیا اور بلاتمہید شروع ہو گیا۔
”آپ کو لوگوں کا اتنا خیال ہے اور میرا نہیں؟ گر آپ کے بچے ہوتے تو بھی میں آپ سے شادی کرتا‘ کسی غلط فہمی میں مت رہئے گا‘ حالانکہ اصولاً تو مجھے آپ سے خفا ہونا چاہئے تھا۔ اس دن بہت برا سلوک کیا تھا آپ نے میرے ساتھ۔“ اس کے انداز میں یک دم ناراضگی در آئی ۔””کس دن کی بات کر رہے ہیں آپ؟“ اس نے چونک کر کہا۔
”جس دن میں نے شفٹ ہونے پر پارٹی دی تھی اور آپ کو لینے آیا تھا تو آپ نے کیسے کیسے گھٹیا الزام لگائے تھے مجھ پر کہ میں اس گھر کی بیٹی اور بہو دونوں پر نظریں ڈال رہا ہوں۔“ اس کے انداز پر وہ بے ساختہ مسکرا اٹھی ۔ دھلی دھلی شفاف مسکراہٹ نے اس کے چہرے کو منور کر دیا تھا۔
”اب بھی مسکرا کر میرا مذاق اڑا رہی ہیں۔“ اس نے گہری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور اس کے مقابل آگیا۔
”جو ہوا سو ہوا مجھے کوئی شکایت نہیں ہے رابی ! پلیز اب انکار مت کرنا‘ میں نے تمہیں چاہا ہے۔ بے لوث تمنا کی ہے۔ محبت کے فسانے زبان سے نہیں آنکھوں سے کہے جاتے ہیں۔ دل سے محسوس کئے جاتے ہیں۔“
اس کے بھاری دلکش لہجے میں چاہتوں کی مہک در آئی تھی۔”میں ان میں سے نہیں ہوں جو قبل ازوقت جذبوں کو آشکار کر کے محبت کے لطافتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔“
”آپ کے گھر والے…. ان کا خواب مجھ جیسی بہو لانے کا نہیں ہوگا۔آپ ان کے اکلوتے وارث ہیں۔“ اس کے لہجے میں وہی محرومی امڈآئی جس نے اسے بے کل کیا ہوا تھا۔
”تم! سب وہم سب خدشے و خوف ذہن سے نکال دو۔ میں نے ان کو سب بتا دیا تھا۔ کوئی بات نہیں چھپائی اور وہ خوش ہیں بلکہ….ممی کا اصرار ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتی ہیں۔“
”کیوں؟“
”تاکہ تمہیں سمجھا سکیں کہ وہ تمہاری جیسی بہو کی ہی خواہشمند ہیں جو ان کا گھر سنبھال سکے۔ اچھے اچھے کھانے کھلا سکے اور…. اور ان کے پھوہڑ‘ بدسلیقہ و لاپروا بیٹے کو بھی سنبھال سکے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا تورابیکا سرجھکا کر رہ گئی۔
”میں ممی سے بات کرواتا ہوں۔“ اسے خاموش دیکھ کر وہ سنجیدگی سے سیل فون جیب سے نکالتا ہوا بولا۔
”نہیں…. میں کیا بات کروں گی۔“ وہ گھبرا گئی۔
”تسلی کرلو اپنی۔“نہیں میری تسلی ہو گئی۔“ شرمگیں لہجے میں کہا گیا۔
”کیا…. کیا کہا ذرا پھر سے کہنا؟“ وہ ایسے مسرت سے چیخ اٹھا جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جائے۔
”آپ…. اپنے پیرنٹس کو بلوالیں۔“ وہ کہہ کر رکی نہیں کمرے سے باہر نکل گئی۔
عمر جبران کا زندگی سے بھرپور قہقہہ گونج اٹھا۔
٭….٭….٭