”اوکے ریلیکس‘ ریلیکس‘ میں جا رہا ہوں‘ مگر آپ کو باور کرادوں‘ دنیا بہت وسیع ہے آپ صرف قدم بڑھانے کا حوصلہ کریں راستہ خودبخود آپ کو مل جائے گا‘ اس گھر میں عاقب کے سوا سب پتھر رہتے ہیں آپ سمجھ رہی ہیں سب کی خدمتیں کر کے‘ غلامی کر کے ان کے دل موم کر لیں گی تو آپ ایسا تا قیامت نہ کر پائیں گی‘ آپ کی خدمتیں‘ نوازشیں‘ مہربانیاں‘ یہ لوگ وصول کرتے رہیں گے اپنا حق سمجھ کر آپ کو دینے کے لئے طعنے‘ گالیاں‘ نفرت و حقارت کے جذبے ہی رہیں گے۔“ وہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا تھا اس کے انداز میں رابیکا کے لئے ہمدردی تھی۔
رشیدہ کے خراٹے کمرے میں گونج رہے تھے۔ وہ بے خبر سو رہی تھی رابیکا کی آنکھوں سے نیند غائب تھی‘ باوجود کوشش کے وہ سو نہیں پا رہی تھی۔ ایسا تب سے ہو رہا تھا جب سے عمر کی بڑھتی ہوئی بے تکلفی و دلچسپی اس نے محسوس کی تھی وہ سب کچھ بھلائے زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی انا‘ خودداری ‘ عزت نفس سب کو فراموش کئے ان کی خدمت کو ہی مقصد بنایا تھا۔ عمر جو اسے خودداری و عزت نفس کے سبق پڑھا رہا تھا‘ احساسات جگا رہا تھا ان احساسات سے وہ آشنا تھی مگر یہاں وہ کس سے انا برتتی کس کو خودداری دکھاتی؟ اس کے پاس گھر تھا نہ اپنے لوگ‘ درخت سے گرے برگِ آوارہ کی مانند زندگی تھی۔ یہاں رہ کر وہ خود کو پھر بھی محفوظ سمجھتی تھی ورنہ چچا کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں کی آنکھوں میں پھیلی ہوس نے اسے اسی جگہ ٹھہر نے کا مشورہ دیا گوکہ یہاں فرح بیگم اور نمرہ کی لہو لہو کر دینے والی باتوں سے وہ گھائل ہو جاتی تھی مگر اپنی ناموس کی حفاظت کے لئے اسے یہ سب برا نہیں لگتا تھا۔اس خوف سے کہ وہ اسے نکال باہر نہ کریں وہ مشین بن گئی تھی۔ صبح سے رات گئے تک کام کام صرف کام اورپھر اپنے کمرے میں آکر ایسی بے خبر سوتی کہ صبح کی ہی خبر لاتی تھی۔ البتہ بڑی نند ثمرہ کے شوہر عاطف کی نگاہوں میں بھی اسے چچا کے بیٹو کی آنکھوں میں آنے والی ہوس نظر آتی تھی اور اس کی موجودگی میں وہ احتیاط سے رہتی تھی اور اب ایک نئی مصیبت عمر کے روپ میں اس کے لئے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔وہ اس سے جتنا چھپنا چاہتی‘ بچنا چاہتی وہ اس تک پہنچ جایا کرتا تھا۔
دراصل اسے عاقب کے دوست ہونے اور پھر فرح بیگم کے ممکنہ داماد ہونے کا شرف حاصل تھا۔ اس لئے اس کو ضرورت سے زیادہ اعتماد و رعایت حاصل تھی جس سے وہ ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
نمرہ میں اس کی دلچسپی رابیکا کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھی۔ اکثر وہ دونوں کو باتیں کرتے‘ باہر آتے جاتے دیکھتی تھی۔ پہلے وہ خوش تھی کہ عمر جیسا شخص نمرہ کی لائف میں آگیا ہے وہ سدھر جائے گی‘ نمرہ بیک وقت کئی لڑکوں سے دوستی نبھا رہی تھی اور اسے ڈر تھا وہ غلط قدم نہ اٹھالے ۔ عاقب اچانک کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کے بوجھ میں دب کر رہ گیا تھا۔ فرح بیگم کو نمرہ پر حد سے زیادہ اعتماد تھا۔ دنیا کی ماﺅں کو بیٹیوں کی اچھی تربیت‘ پردے کی پابندی و قدم قدم پر نگرانی کرنے کا درس دینے والی فرح بیگم کی اپنی بیٹی کی کسی بات پر نگرانی نہ تھی وہ نماز نہیں پڑھتی تو جواب تھا عمر پڑی ہے پڑھ لے گی۔ پردے کے لئے ارشاد تھا ظاہری پردے سے زیادہ نگاہوں کا حجاب ضروری ہے۔ ایسے من گھڑت جواز ان کے پاس موجود تھے جس سے نمرہ بھر پور فائدہ اٹھا رہی تھی۔ عمر کے آنے کے بعد اس کی بیرونی سرگرمیاں کم ہو گئی تھیں۔ وہ عمر کو پسند کرنے لگی تھی۔ فرح بیگم کا رجحان و مقصد بھی رابیکا سمجھ گئی تھی اور خوش تھی کہ اچھے اخلاق‘ خوبصورت اور اعلیٰ حیثیت کا حامل عمر اس گھر کا داماد بنے گا۔ عاطف سے وہ ہر لحاظ سے بہتر تھا مگر…. اس کے لئے وہ ویسا ہی مرد تھا۔ عاطف اور چچا کے بیٹوں کی طرح فرق ان کے درمیان یہ تھا کہ وہ اپنی ہوس ناک نگاہوں کے ذریعے اپنا آپ ظاہر کر دیتے تھے۔ اور عمر شرافت و ہمدردی کا جال بچھا کر اس کا شکار کرنا چاہتا تھا جو کسی طرح ممکن نہ تھا۔
٭٭٭
میز پر وہ سب ناشتے میں مصروف تھے۔ معاً عمر گویا ہوا۔
”آنٹی آپ بہت نائس بے حد گریٹ ہیں میں نے کسی عورت کو آپ جیسا فراخ دل و نرم طبیعت کا نہیں دیکھا۔“ عمر کے لہجے میں ستائش و عقیدت تھی۔”ابھی تم نے یار! مما کی اسپیشل کوالٹیز دیکھی کہاں ہیں۔“ عاقب کے لب و اہوتے دیکھ کر ان ماں بیٹی کے چہروں پر اضطراب پھیل گیا کہ وہ کب کیا کہہ دے ۔
”کیپ کوائٹ یار! مجھے آنٹی سے ایک سیریس میٹر پر ڈسکس کرنی ہے۔“
”ہاں…. ہاں کہو بیٹا! ایسی کیا بات ہے؟“ وہ کپ سا ئیڈ پر رکھ کر تجسس سے گویا ہوئی تھیں۔
”آنٹی ! اتنی اچھی ہیں آپ‘ آپ کی تعریف سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ میرے دل میں بڑی عقیدت ہے آپ کے لئے مگر….“
”آپ خود اتنے نیک‘ فرمانبردار و ہونہار ہو میں سمجھتی ہوں آپ کے روپ میں اللہ نے مجھے میرا ثاقب لوٹا دیا ہے۔ مجھے بڑی راحت محسوس ہوئی ہے آپ کے یہاں آنے سے میں چاہتا ہوں آپ مجھ سے تعلق کبھی نہ منقطع کریں۔“وہ سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے مسرور لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ نمرہ کے لبوں پر بڑی طمانیت آمیز مسکراہٹ ابھر آئی تھی جبکہ عاقب چپ رہا۔
”میں بھی یہی چاہتا ہوں آپ کا بیٹا بن کر رہوں۔“
”عمر! آپ کوئی پرابلم ڈسکس کرنے والے تھے وہ کریں۔“
نمرہ نے اس کی جانب مکھن لگے سلائس بڑھاتے ہوئے کہا۔
”یہ ہے تو پرسنل افیئر آپ کا شاید مجھے اس میں بولنا چاہئے بھی یا نہیں لیکن مجھے آپ کی پریسٹیج کا خیال نہ ہوتا تو میں اگنور کر دیتا مگر نہیں چاہتا آپ جیسی نائس لیڈی کے متعلق کوئی غلط فہمی کا شکار ہو رابیکا کے حوالے سے۔“
”رابیکا کے حوالے سے؟ کیا مقصد بیٹا؟“ وہ پوری طرح متوجہ ہوئیں۔
”آپ جانتی ہیں‘ میں جانتا ہوں‘ گھر کے تمام لوگ جانتے ہیں رابیکا کے گریز اور تنہائی پسندی کو مگر لوگ سمجھیں گے‘ آپ نے انہیں دباﺅ میں کر رکھا ہے روایتی ساسوں کی طرح بے حس و ظالمانہ رویہ ہے۔“ وہ بہت چالاکی سے انہیں اپنے پلان میں انوالو کر رہا تھا۔نہیں …. نہیں ایسی بھلا کیا بات ہو سکتی ہے۔ میں نے رابیکا کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے‘ ہر طرح کی آزادی دے رکھی ہے وہ اپنی مرضی سے کھاتی ہے‘ اپنی مرضی سے پہنتی ہے اپنی مرضی سے رہتی ہے‘ میں بھلا کیوں اس پر ظلم کروں گی‘ وہ میری بہو ہے بیوہ ہے‘ غیروں کی بیوہ بہوﺅں پر میں خرچ کرتی ہوں‘ خیال رکھتی ہوں‘ بیواﺅں سے محبت کرنا‘ ان کی دلجوئی و خیال کرنا‘ جینے کا حوصلہ دینا وغیرہ وغیرہ کس قدر ثواب کمانے کے ذریعے ہیں یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔“ ان کے اندر کی منافقت بے ربطگی سے باہر نکل رہی تھی۔ ان کی گھبرائی ہوئی نگاہیں عاقب کی جانب بھی اٹھ رہی تھیں جو سرجھکائے کھانے میں مصروف تھا۔”جس طرح مما نے بھابھی کو رکھا ہوا ہے اس طرح کوئی ساس نہیں رکھتی ہے۔“ نمرہ نے بھی پر فریب مسکراہٹ کی بجلی گراتے ہوئے کہا۔
”بے شک…. اس میں کوئی شک نہیں ہے۔“ عاقب زیادہ برداشت نہ کر سکا۔
”میں یہی چاہتا ہوں اتنی اچھی بات‘ ایسا قابل فخر عمل کیوں لوگوں سے پوشیدہ رہے؟ ایسے نیک کام و اعلیٰ جذبے کو سب کی پذیرائی ملنی چاہئے‘ ایسے قابل ستائش و منفرد کام بے دھڑک کرنے چاہئیں تاکہ لوگوں کے لئے قابل تقلید ہوں‘ لوگ آپ کی فراخدلی و نیک نیتی کے گن گائیں۔“ عمر پر جوش انداز میں بولا۔ اس کی تائید عاقب نے کی۔”مگر یہ کس طرح ممکن ہے؟ رابیکا بیٹی نہیں مانے گی۔“ وہ بوکھلا گئیں۔
”ان کو سمجھانا آپ کا کام ہے وہ آپ کی بات ٹالنے کی ہمت نہیں کر سکتیں۔“ نیت بے کھوٹ‘ جذبے صادق ہوں تو ناممکن بھی ممکن بن جاتا ہے۔
بے ڈھب حلئے‘ بدرنگ لباس والی‘ پردوں کے پیچھے ڈری سہمی رہنے والے رابیکا عمر کی پر زور کوششوں کے باعث ان کے درمیان آچکی تھی۔ ان کا ڈر خوف اپنی جگہ قائم تھا۔ مگر لباس و حلیے میں قدرے بہتری آگئی تھی۔ عمر کی چکنی چپڑی باتوں نے فرح بیگم کو کچھ زیادہ ہی خوش گمانی میں مبتلا کر دیا تھا یا پھر ہونے والے داماد کو متاثر کرنے کی خاطر وہ سب کچھ کرنے پر مجبور تھیں۔ رابیکا ڈائننگ ٹیبل پر ان کے ساتھ ہوتی تھی۔”عمر صاحب کمال کے انسان ہیں جو چاہتے ہیں وہ ایسی ہوشیاری سے منواتے ہیں کہ سامنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہوتا اور کام ہو جاتا ہے۔“
ملازمہ رشیدہ عمر کی تعریف میں رطب اللسان رہتی تھی اس وقت بھی مٹر کے دانے نکالتے ہوئے وہ رابیکا سے مخاطب تھی۔
”تیز تیز ہاتھ چلاﺅ نورتن کے لئے سبزیاں بنانی ہیں‘ قیمہ میں پیس چکی ہوں‘ پھر گجریلے کے لئے گاجریں بھی کدوکش کرنی ہیں۔ عاطف بھائی ٹائم پر کھانا کھانے کے عادی ہیں۔“ وہ اس کی بات سنی ان سنی کر کے بولی۔”یہ عاطف صاحب بھی جب چاہا منہ اٹھا کر آجاتے ہیں پھر ہر وقت کھانا کھانا اور صرف کھانا پھر حیرت ناک بات ہے کہ اتنا کھا کر بھی سوکھے سڑے ہیں۔“
”رشیدہ! زبان کو قابو میں رکھو اگر کسی نے سن لیا تو جانتی ہو کیا ہوگا۔“ وہ اسے دیکھتے ہوئے فہمائشی لہجے میں گویا ہوئی۔
”ارے کوئی نہیں سنتا‘ کسے فرصت ہے کچن میں آنے کی۔“ نمرہ بی بی سارا دن کمپیوٹر کے آگے کھٹ پٹ کرتی رہتی ہیں یا پھر عمر صاحب کے آنے سے پہلے گھنٹوں آئینے کے سامنے بیٹھ کر نامعلوم کون کون سی کریمیں ‘ لوشنز لگاتی ہیں‘ عمر صاحب کے آنے کے بعد ان کے آگے پیچھے ہی رہتی ہیں یا ان کے ساتھ باہر چلی جاتی ہیں۔ بیگم صاحبہ کو اپنے ملانی پن سے فرصت نہیں ملتی ہے۔“
”رشیدہ!“ اس کے ملانی کہنے پر رابیکا نے تنبیہہ کی۔
”میں صحیح کہہ رہی ہوں جی! میرا بڑا دل کھٹا ہوا ہے ان کو قریب سے دیکھ کر۔ کل تک میرے دل میں ان کی بڑی عزت تھی‘ بڑی قدر تھی‘ ان سے ہی سن کر میں نے نماز پڑھنا شروع کی‘ قرآن پابندی سے پڑھنے لگی‘ اپنوں ‘ غیروں سے اچھا سلوک اور محبت ان کے واعظ اور درس کی محفلوں سے سیکھا۔ یہاں آنے سے قبل میرے لئے یہ آسمان پر چمکتے چاند کی طرح خوبصورت و روشن تھیں۔ یہاں آکر محسوس ہوا چاند ہم سے بلندی پر ہی رہے تو بہتر ہے ورنہ قریب جا کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کی خوبصورتی و چمک دمک دھوکہ ہے وہ خود اندھیروں اور بدصورتی کی مثال ہے۔“ مٹر کے چھلکوں کو شاپر میں ڈالتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی۔ رابیکا محض اسے دیکھ کر رہ گئی۔”کون کیا ہے اور کیا نہیں یہ محاسبہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ایمان اور اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں یہی بہتر ہے۔“
”آپ کی بات ٹھیک ہے جی!مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ جو لوگ دین کی سرپرستی و رہنمائی کا بیڑہ اٹھاتے ہیں ان کی عادت و کردار‘ مزاج و اخلاق ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا وہ لوگوں کے سامنے بن کر آتے ہیں۔“
”اوہو….بہت بڑی بڑی باتیں کرنی آتی ہیں کہاں سے سیکھیں؟“ وہ قیمے کے کوفتے بناتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
”بس جی‘ ایسی لوگوں نے سکھا دی ہیں۔ میری دادی کہتی تھیں نیم حکیم خطرہ جان اور میں سوچتی ہوں نیم مُلاّ خطرہ ایمان ‘ اگر درس دینے والے خود عمل نہیں کریں گے‘ تو مجھ جیسے لوگ ایسی محفلوں میں جانا اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے‘ گھر بیٹھ کر نماز پڑھیں گے‘ قرآن پڑھیں گے۔“
”یہ بہت اچھی بات ہے رشیدہ! مگر ایسی پاکیزہ محفلوں میں پورے خلوص اور عمل کرنے کی نیت کے ساتھ شرکت کرنی چاہئے کہ دل پر لگے زنگ کو دھونے کا ذریعہ بنتی ہیں۔“ اس نے رشیدہ کی بددلی دور کرنے کی کوشش کی۔”رابیکا! رابیکا پلیز مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ عمر تیزی سے اس کے راستے میں حائل ہو کر سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”میں آپ سے کئی بار کہہ چکی ہوں‘ مجھے میرے نام سے مت پکارا کریں۔“
”پھر کس طرح پکاروں“ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
”کوئی ضرورت نہیں پکارنے کی۔“ وہ سخت اندازمیں گویا ہوئی۔
”آپ اتنی بیزار ‘ اتنی خفا کیوں رہتی ہیں مجھ سے وجہ کیا ہے؟“
”فالتو باتوں کو چھوڑیں‘ کام کی بات کریں۔“ رابیکا کے سرد مہر انداز نے عمر کے اعصاب جھنجھوڑ ڈالے مگر وہ ضبط سے بولا۔
”یہاں کھڑے کھڑے اچھا نہیں لگ رہا لان میں چل کر بات کرتے ہیں۔“
”سوری مسٹر عمر! میں اس گھر کی بہوہوں بیٹی نہیں‘ میرے کچھ اصول و حدود ہیں جن کی پاسداری میں میری بقا ہے۔“ اس کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”مائنڈ اٹ رابیکا! آپ اس گھر میں صرف ایک روبوٹ کی حیثیت رکھتی ہیں جس کا کام صرف اور صرف کام کرنا ہے اپنی عزت نفس و انا‘ خودداری بھلا کر غلامی کرنا ہے‘ خدمت کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے۔ یہ سوچ کر کہ آپ کو یہاں ہمیشہ کے لئے ٹھکانہ مل جائے گا جو ناممکن ہے۔ نمرہ ثمرہ آپ کو کچھ نہیں سمجھتیں‘ آنٹی کے خیال میں آپ ثاقب کی موت کا سبب ہیں‘ وہ کبھی بھی آپ کو یہاں سے نکال سکتی ہیں پھر عاقب کی بیوی آجائے گی تو آپ“”خاموش ہو جائیں‘ مجھے آپ کی بکواس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔“ وہ کہہ کر رکی نہیں سیدھی چلی گئی عمر گہری سانس لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔
وہ شدید غصے کے مارے جھنجلاہٹ سے بڑھ رہی تھی جب آگے بڑھتے اس کے قدم رک گئے اور یک دم در آنے والے خوف سے آگے بڑھ سکی نہ پیچھے ہٹ سکی۔
”رک کیوں گئیں؟ میں کب سے ویٹ کر رہا ہوں۔“ گیلری کے اختتام پر سائیڈ میں وہ کھڑا رابیکا کو دیکھ کر آہستگی سے گویا ہوا۔
”کیوں؟“ اس کی بے حجاب آنکھوں‘ مکروہ مسکراہٹ سے اسے خوف آتا تھا۔
”بہت ساری باتیں کرنی ہیں تم سے بہت سوچتا ہوں تمہارے متعلق بہت ظلم ہوا ہے تمہارے ساتھ یہ کم عمری‘ پھول سی جوانی‘ سہاگ کا ایک لمحہ نہیں گزارا تم نے اور بیوگی کی چادر اوڑھ لی۔“ نفس کی غلاظت ہوس بن کر وجود پر چھا جائے تو شائستگی و پاکیزگی لہجے سے مٹ جاتی ہے اور حیوانی جبلت عیاں ہو جاتی ہے۔ عاطف کی آمد سے وہ یوں ہی گھبراتی تھی۔ اکھڑ مزاج‘ تند خو وہ دامادوں کی اس صنف میں سے تھا جو سسرال کو اپنی ٹھوکر میں رکھتے ہیں۔ پھر حکمرانی بھی وہیں کرتے ہیں وہ بھی یہاں کسی سے سیدھے منہ بات کرنے کا روادار نہ تھا۔ سب کو اپنی خوشامد و مدارت میں لگے دیکھ کر اس کی خود پسندی و خودپرستی کو تسکین ملتی تھی۔ البتہ رابیکا کو وہ دانستہ نظر انداز کرتا ”رک کیوں گئیں؟ میں کب سے ویٹ کر رہا ہوں۔“ گیلری کے اختتام پر سائیڈ میں وہ کھڑا رابیکا کو دیکھ کر آہستگی سے گویا ہوا۔اور پھر موقع کی تاک میں رہتا کہ کسی طرح وہ اس پر قابو پالے۔ رابیکا اس کی نیت بھانپ گئی تھی‘ وہ پہلے ہی بے حد احتیاط کرتی‘ عاطف کے برے ارادے جان کر اور زیادہ محتاط ہو گئی تھی۔ مگر یہ اس کا گھر نہ تھا۔ نہ اپنے لوگ تھے جہاں وہ مدد مانگ سکتی یا خود کو پوری طرح محفوظ رکھ سکتی۔
”ابھی پوری عمر پڑی ہے تمہارے آگے کس طرح گزاروگی؟ تمہارا کوئی فیوچر نہیں ہے تم گھر میں محفوظ ہو نہ گھر سے باہر‘ یہاں عاقب ہے اس کی نگاہیں پہلے ہی مجھے اچھی محسوس نہیں ہوتیں اور اب اس کا وہ دوست آیا ہوا ہے۔ وہ عمر عاقب سے بھی زیادہ لفنگا لگ رہا ہے‘ مجھے فیل ہو رہا ہے وہ دونوں تمہاری….“”عاطف بھائی! عاقب مجھے بہنوں کی طرح عزیز رکھتا ہے اور عمر کی بھی جرات نہیں ہو سکتی مجھے بری نگاہوں سے دیکھنے کی‘ آپ میری فکر مت کریں۔“ عاقب پر لگائے گئے ایسے رکیک الزام پر اسے طیش آگیا۔
”تم کیا جانو پریٹی گرل! مردکب رشتے بدل لے‘ ارادے بدل لے‘ اسی لئے کہتا ہوں‘ میری بات مان لو‘ شادی کر لو مجھ سے بہت دولت ہے میرے پاس عیش کرو گی عیش“ وہ قریب آتے ہوئے بولا۔
”میرا جواب کل بھی نہیں تھا‘ آج بھی نہیں ہے اور ہمیشہ نہیں ہوگا۔“ اس کا جواب سن کر عاطف کے چہرے پر غیظ و غضب کے تاثرات ابھر رہے تھے اور قبل اس کے کہ وہ کوئی پیش قدمی کرتا ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی آرہا ہو وہ بوکھلا کر واپس پلٹ گیا تھا اور وہ لق دق کھڑی رہ گئی۔
”میاﺅں۔“بلی بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی تھی اور وہ اپنے کانپتے وجود کو گھسٹتی اپنے کمرے میں آگئی ۔ دروازہ لاک کر کے فرش پر ہی بیٹھ گئی۔ اس کی آہوں اور سسکیوں سے درو دیوار لرزنے لگے۔٭٭٭
عمر کو فرم کی جانب سے ملنے والا بنگلہ فل فرنشڈ تھا۔ وہ آج وہاں شفٹ ہو رہا تھا۔ اسی خوشی میں اس نے سب کو پارٹی دی تھی۔ فرح بیگم ڈرائیور کے ہمراہ جا چکی تھیں۔ نمرہ دوپہر سے ہی پارلر گئی ہوئی تھی۔ عاقب وہیں سے اسے پک کرنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ فرح بیگم رشیدہ کو بھی ساتھ لے گئی تھیں۔ وہ گھر میں تنہا تھی۔ کام سے فارغ ہو کر اپنے لئے چائے کا مگ لئے لاﺅنج میں آکر بیٹھ گئی۔ وہ رات کو اس کے پاس آیا اور کہہ رہا تھا۔
”کہا سنا معاف!“ میں کل جا رہا ہوں یہاں سے۔“ خلاف معمول اس کی آنکھوں میں شوخی کی جگہ اداسی اور لہجے میں حد درجہ سنجیدگی تھی۔
”آپ یقیناً میرے جانے پر ہزار نہیں تو سونفل شکرانے کے ضرور پڑھیں گی۔“ وہ اسی بے نیازی سے اسے برتن دھوتے دیکھ کر پھر گویا ہوا۔
”مجھے آپ کے رہنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ وہ مصروف انداز میں گویا ہوئی۔ اس کا روشن چہرہ لمحے بھر کو تاریک سا ہو گیا تھا۔ دل کے اندر تڑپتی آرزو میں مزید شدت آگئی وہ بوجھل نگاہوں سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔سیاہ و سفید پرنٹڈ سوٹ میں لاپرواحسن۔
سادگی و ایثار کا پیکر۔
نہ معلوم کب وہ ڈری سہمی بے اعتماد و خاموش خاموش رہنے والی حسرت و یاس میں لپٹی لڑکی اس کی خواہش بن بیٹھی تھی۔ دل اس کی آرزو میں بے کل رہنے لگا تھا اور وہ اس کے جذبوں سے یکسر بے خبر اس کے وجود سے خائف و بیگانہ تھی۔
”جی مجھے احساس ہے آپ کو اپنی زندگی کی‘ خواہشوں کی پروانہیں ہے تو بھلا کسی کو کیا فرق پڑے گا۔ خود سے انتقام لیتا کسی کو فرسٹ ٹائم دیکھ رہا ہوں۔ میں آپ کو انوائیٹ کرنے آیا ہوں۔ کل آپ آئیں گی نا….پلیز میں انتظار کروں گا…. آپ کے آنے سے میری خوشیوں کو حیات مل جائے گی۔ میں آنٹی سے اسپیشلی آپ کی….“
”جی بے حد شکریہ‘ آپ کی عنایتوں و نوازشوں کو پہلے ہی بھگت رہی ہوں۔ مزید کسی مہربانی کی ضرورت نہیں ہے‘ میں کہیں نہیں جاتی۔“ اس کا دوٹوک انداز عمر کے تمام حوصلے پست کر گیا مگر پھر بھی وہ جاتے جاتے بولا۔
”میں آپ کا شدت سے انتظار کروں گا۔“
”عمر خان! میں اچھی طرح جانتی ہوں تم جیسے مردوں کو جو اپنی دولت و وجاہت کے نشے میں ڈبل گیم کھیلنے‘ ڈبل کراس کرنے کے عادی ہوتے ہو۔ محبت اور فلرٹ ساتھ ساتھ کرتے ہو‘ جیسے عاطف جو بیوی پر کسی پروانے کی طرح فدا رہتا ہے اور چھپ کر بھنورے کی طرح مجھ پر بھی نثار ہونے کی کوشش کرتا ہے‘ شادی کی خواہش رکھتا ہے یا پھر دولت کی چمک سے میری آنکھیں اندھی کر کے اپنے ناجائز مطالبے منوانا چاہتا ہے۔ا س کی ناپاک دسترس سے بچنے کے لئے بڑی کٹھن جدوجہد کرنی پڑی ہے مجھے‘ دوسرے تم ہو عمر خان‘ تمہاری حرکات و سکنات‘ نظریں و گفتگو عاطف جیسی نہیں ہیں مگر ارادے وہی ہیں۔ نمرہ کے ساتھ تمہاری انڈر اسٹینڈنگ مجھ سے چھپی تو نہیں پھر میں خود چاہتی ہوں تم اس کے بن جاﺅ مگر تم کیا چاہتے ہو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ تنہا و بیوہ عورت تم جیسے مردوں کے لئے بے نام زمین کی طرح ہوتی جس پر تم جیسے بدکردار‘ نفس پرست لوگ غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔صوفے کی بیک سے سر ٹکائے وہ سوچ رہی تھی۔ کھڑکیوں سے آتی تیزی ہوا اسے اچھی لگ رہی تھی۔ بہت آزادی سے وہ لاﺅنج میں بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ گھر کے سب افراد کہیں جائیں اور وہ چند گھنٹے اسی طرح آزادی سے انجوائے کرے آج عمر اپنے گھر میں شفٹ ہوا تھا اور اس پر وہی الگ تھلگ رہنے‘ بچا کھچا کھانے کی پابندی عائد تھی۔ وہ پابندی میں خوش تھی۔ میز پر عاقب‘ عمر اس کی پلیٹ میں زبردستی کچھ نہ کچھ ڈالتے اور کبھی کبھی طوہاً وکرہاً نمرہ‘ فرح بیگم بھی زبردستی کھانے پر مجبور کرتیں اور ان کے میٹھے لہجوں کی کڑواہٹ آنکھوں کی تحقیر کھانا بدمزہ کر دیتی۔ موقع ملتے ہی وہ طعنے دینا‘ مغلظات بکنا شروع کر دیتی تھیں۔ آج دال روٹی کھا کر اسے وہ راحت ملی تھی جو کل تک مرغ مسلم کھا کر کھوئی ہوئی تھی۔
اس نے وال کلاک کی جانب دیکھا۔ سوئی گیارہ کے ہندسے سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ڈور بیل بجی تھی۔ دروازہ کھولنے پر جو چہرہ نظر آیا اسے دیکھ کر وہ بے ساختہ پیچھے ہٹ گئی تھی۔ وہ اسے دیکھتا ہوا اندر چلا آیا تھا۔”گھر….گھر میں کوئی نہیں ہے اور آپ…. آپ کے ہاں تو پارٹی ہے؟“ اس وقت عمر کا آنا اور اس کے بگڑے تیور اسے بوکھلا گئے تھے۔
”میں نے آپ سے کہا تھا آپ کو پارٹی میں ضرور آنا ہے….آپ نہیں آئیں۔“ وہ اس کے قریب آکر سنجیدگی سے بولا۔
”میں کہیں نہیں جاتی‘ یہ میں نے آپ سے کہا تھا۔“
”رابیکا! آپ کب تک خود کو سزا دیتی رہیں گی۔“ وہ آہستگی سے بولا۔
”آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ صرف نمرہ کی فکر کریں۔“
”نمرہ کی فکر….کیوں؟ میرا اس سے کیا تعلق؟“وہ ازحد متعجب ہوا۔
”بہت خوب! آپ خود سے جھوٹ بول رہے ہیں یا مجھے احمق سمجھ رہے ہیں؟“
”آپ مجھ سے صاف بات کریں‘ کیا کہنا چاہتی ہیں؟“ الجھنیں اور شکنیں اس کی فراخ پیشانی پر پھیلنے لگی تھی۔”آپ نمرہ میں انٹریسٹڈ ہیں اس کی خاطر یہاں رہ رہے تھے۔“
”وہاٹ! امپاسبل‘ میں اور نمرہ میں انسٹرسٹڈ ہوں گا۔“ وہ حیرانگی سے بولا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دھیرے سے گویا ہوا۔
”نہ معلوم کب اور کیسے آپ میرے دل کی حکمران بن گئیں۔“
”عمر…. خان! دماغ درست ہے آپ کا!“ وہ اس کی جرات پر جی جان سے لرز کر رہ گئی جبکہ وہ اطمینان سے کھڑا تھا۔
”آپ کہتی ہیں میں نمرہ کے لئے آتا ہوں جبکہ میں آپ کی خاطر….“
”خاموش رہو اور نکل جاﺅ یہاں سے۔“ وہ غصے سے چیخ کر بولی۔
”نہیں آپ کو میری بات سننی ہوگی۔“ وہ آگے بڑھ کر ہٹ دھرمی سے گویا ہوا۔”نہیں سننی مجھے تم جیسے گھٹیا انسان کی بات نکل جاﺅ یہاں سے۔“
”پلیز چیخیں مت‘میں دیوار پھلانگ کر آیا ہوں۔ اگر چوکیدار کے پاس آواز چلی گئی تو آپ کیا جواب دیں گی میری موجودگی کا؟“ جواباً وہ شعلہ بار نگاہوں سے اسے گھور کر رہ گئی۔ وہ دلکشی سے مسکرادیا۔
”بہتر یہی ہوگا آپ جس طرح آئے ہیں اسی طرح چلے جائیں اور مجھے معاف کر دیں۔ بے شک میرے نصیب نے مجھے بہت بے توقیر وارزاں کر ڈالا ہے۔ کم مائیگی و ذلت و تحقیر میرا تعارف بن گئی ہے مگر میں اس قسم کی لڑکی نہیں ہوں جیسی آپ مجھے سمجھ رہے ہیں۔ مجھے اپنا تقدس دنیا کی ہر دولت سے بڑھ کر عزیز ہے۔“
”آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں رابیکا! مجھ پر اعتبار کریں میں آپ کے ساتھ فلرٹ نہیں کر رہا تھا مجھ پر اعتماد کریں۔“”اعتماد اور آپ پر؟“ وہ نفرت سے ہونٹ سیکڑ کر بولی۔ ”ایک ایسے دوغلے شخص پر اعتماد کروں جو اس گھر کی بیٹی کو محبت کے سبق ازبر کروا رہا ہو اسے دھوکہ دے رہا ہو اور اسی گھر کی بہو کو بھی بہکانے پر آمادہ ہو۔ میں اعتبار نہیں کر سکتی۔“ رابیکا کے لہجے میں بے اعتماد و بدظنی کچھ اس طرح تھی کہ عمر پہلے تو چند لمحے شاکڈ سا کھڑا رہ گیا پھر ایک دم ہی وحشت و جنون سرخی بن کر اس کے چہرے پر چھاتی گئی