صبح ناشتے کی میز پر سب نے اس کی مضمحل طبیعت سرخ آنکھوں کی تھکاوٹ کو محسوس کیا تھا۔
”طبیعت تو ٹھیک ہے بیٹا!“ فرح بیگم نے بوائل انڈے کی ڈش اس کے آگے رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
”جی آنٹی! میں ٹھیک ہوں۔“ وہ فوک ایگ میں پھنساتے ہوئے بولا۔
”لگ تو نہیں رہے۔ آنکھیں آپ کی بہت سرخ ہو رہی ہیں۔“ نمرہ نے کہا۔
”فیور تو نہیں ہو گیا؟“ عاقب نے فکر مندی سے کہا۔
”آئی ایم پرفیکٹ رائٹ‘ آپ پریشان مت ہوں‘ رات مجھے ثاقب بھائی یاد آرہے تھے پھر میں سو نہ سکا۔“ وہ انڈہ کھاتے ہوئے بولا۔
”آہ….ہا! اب کی اس کی یاد ہی تو رہ گئی ہے۔“ ثاقب کے ذکر پر ان کے چہرے سنجیدہ ہو گئے۔ فرح بیگم ایک رنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
”وہ ہم سے جدا ہو گئے مگر ان کی یاد کبھی جدا نہیں ہو سکتی۔“ عاقب گہری سانس لے کر کہہ اٹھا۔”ثاقب بھائی کی وائف کہاں ہوتی ہیں؟“ اس نے فرح بیگم سے سوال کیا تھا اور جواب میں کئی رنگ ان کے چہرے پر پھیلتے دیکھے۔
”وہ….یہیں ہوتی ہیں اسی گھر میں۔“ ماں کو مکرو فریب کے جال بنتے دیکھ کر عاقب نے فوراً کہا۔
”اسی گھر میں! اٹس امپاسبل! میں نے آج تک انہیں نہیں دیکھا۔ مجھے آئے تقریباً ایک ہفتہ ہونے والا ہے۔ کیا اس دوران وہ کہیں گئی ہوئی ہیں؟“ وہ باری باری ان تینوں کے چہرے دیکھ رہا تھا پھر اس کی حساس نگاہوں سے فرح بیگم کے چہرے پر نمودار ہوتا تنفروبرہمگی‘ نمرہ کے انداز میں لاپرواہی و بیگانگی و بے چینی چھپی نہ رہ سکی۔ ان میں صرف عاقب کا انداز و چہرہ ہی پر سکون و ہر قسم کی ہچکچاہٹ و اضطراب سے پاک تھا۔
”وہ کہاں جائیں گی یار! یہیں ہیں‘ بھابی کی پیدائش سے دو ماہ قبل ان کے والد انتقال ہو گیا تھا۔ پیدائش پر والدہ کا‘ ان کی چچا نے پرورش کی اور بھابی کی شادی سے کچھ عرصہ قبل ان کے چچا کا بھی انتقال ہو گیا جیسے تیسے چچی اور ان کے بچوں نے ان کو برداشت کیا۔ رخصتی کے بعد شادی والے دن جب بھائی کی کار ٹرک سے ٹکرائی بھائی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ بھابی بھی شدید چوٹوں کے باعث کئی دن ہسپتال میں ایڈمٹ رہی تھیں۔ مما اور ثمرہ آپی معجزانہ محفوظ رہی تھیں‘ بھابی کے گھر والوں نے منحوس کہہ کر ان سے رشتہ توڑ لیا۔“”اوہ…. ویری سیڈ‘ وہ ہیں کہاں؟ میں ان سے ملنا چاہوں گا۔“ وہ اپنے اندر ایک عجیب سی بے کلی و وحشت پھیلتے محسوس کر رہا تھا۔ اس وجدانی کیفیت میں وہ فرح بیگم کو نہ دیکھ سکا تھا جو شعلہ بار نگاہوں سے عاقب کو گھور رہی تھیں۔ نمرہ کا موڈ بھی آف ہو چکا تھا۔
”دراصل بیٹا! پے درپے حادثات اس کے ساتھ اس طرح ہوئے کہ وہ لڑکی خود اعتمادی و بھروسے سے محروم ہو گئی۔ ایسے وقت میں میں نے اس کو تنہا چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا کہ میرا بیٹا نہ رہا مگر بہو تو میرے قریب رہے گی‘ دل سے لگا کر رکھا ہوا ہے میں نے اسے ثمرہ‘ نمرہ سے زیادہ عزیز ہے مجھے‘ ناشتے کے بعد ملواتی ہوں‘ وہ بہت عقل مند و با حیا لڑکی ہے اس کی خواہش پر ہی میں کسی کو اس کے متعلق نہیں بتاتی کہ وہ کہتی ہے گھر میں جوان دیور موجود ہے لوگوں کو رسوائی کا موقع نہ ملے اس لئے وہ کسی سے نہیں ملتی ہے۔“ کافی وقت سے انہوں نے اپنی اشتعال انگیزی پر قابو پا کر بات بنائی تھی۔
رابیکا سے اس کی ملاقات بہت سرسری ہوئی تھی وہ چادر کو اپنے گرد لپیٹ کر گردن و نگاہیں جھکا کر اسے صرف سلام کر پائی تھی۔ فرح بیگم اس کے ساتھ اس طرح تھیں جیسے قیدی کے ساتھ کوئی سپاہی اپنی نگرانی میں ملاقات کرواتا ہے۔ وہ بھی رات والی اس نیک دل پری کو ثاقب کی بیوہ کے روپ میں دیکھ کر خاموش رہ گیا تھا۔”مما! کیا ضرورت پڑ گئی تھی آپ کو اس منحوس سے عمر کو ملوانے کی۔“ نمرہ فرح سے آکر مخاطب ہوئی تھی۔
”ضرورت پڑ گئی تھی تب ہی میں نے مناسب سمجھا کہ اب عمر سے چھپانا خطرناک ہے کیونکہ وہ اس گھر کا ہونے والا داماد ہے۔ آج نہیں تو کل اس پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ پھر عاقب کہاں چھپانے والا ہے۔“ وہ نمرہ کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھیں پر پل اور یلو ساڑی میں نک سک سے تیار وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
”کہیں جا رہی ہو؟“
”جی مما! وہ میں عمر کے ساتھ….“
”اچھا…. اچھا ٹھیک ہے جاﺅ کل ثمرہ اور عاطف آرہے ہیں گھر میں ہی رہنا‘ میں بھی بیگم سجاد کے ہاں جا رہی ہوں درس قرآن میں۔“ وہ ڈرائیور کے ہمراہ چلی گئی تھیں۔عمر اس وقت خلاف معمول جلد آگیا تھا۔ گھر میں پھیلے سناٹے نے اس کا استقبال کیا تھا وہ اپنے کمرے میں چلا آیا حسب معمول کمرہ صاف ستھرا تھا۔ بیڈ کی چادر بے شکن تھی۔ گل دانوں میں تازہ پھول مہک رہے تھے۔ ہر شے اپنی جگہ موجود تھی۔ وہ شوز اتار کر بیڈ پر لیٹ گیا۔ کل تک وہ حیران ہوتا تھا کہ رشیدہ کس طرح اتنی مہارت و صفائی سے اس کی چیزوں کو سیٹ کرتی ہے۔ وہ صبح کمرہ خوب پھیلا کر جاتا تھا۔ گھر میں اکلوتا ہونے کے باعث وہ بہت لاڈلہ و چہیتا تھا۔ اسے کبھی بھی چیزیں سنبھالنا نہیں آیا تھا۔ اس کی موجودگی میں کمرہ پھیلا رہتا تھا۔ یہاں بھی یہی معمول تھا۔ آج اس پر حقیقت عیاں ہوئی تھی کہ یہ تمام سحر انگیزی رابیکا کے سلیقہ مند ہاتھوں کی تھی۔رابیکا کے خیال سے اس کے اندر ایک ناموس سے جذبے نے سرسراہٹ کی تھی اور وہ اضطراب میں اٹھ کر کھڑا ہوا۔ بے نام سی ہلچل خاصی دیر تک ہوتی رہی تھی۔ وہ فریش ہونے باتھ روم میں گھس گیا۔
”رشیدہ! رشیدہ!“ چائے کی طلب اسے کمرے سے وہاں لے آئی تھی۔
”اوہ…. آپ! رشیدہ مارکیٹ گئی ہے سبزی لینے۔“ رابیکا کچن میں اسے دیکھ کر قدرے سٹپٹائی تھی۔
”آنٹی‘ نمرہ کوئی گھر میں نہیں ہیں“ عمر کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔ کاٹن کے سوٹ کا رنگ قدرے اڑ چکا تھا۔ پرنٹ بھی بار بار استعمال سے دھبوں کی صورت اختیار کر گئے تھے اور اس کے نازک جسم پر وہ سوٹ بہت ڈھیلا تھا‘ چہرہ دوپٹے کی اوٹ میں واضح نہ تھا۔ اس کی ذہنی حالت‘ سہم‘ بے بسی و لاچاری فرح بیگم کی دوغلی ماسک زدہ شخصیت کو ظاہر کرنے میں پیش پیش تھی۔”آنٹی درسِ قرآن میں گئی ہیں‘ شاید ساتھ نمرہ بھی گئی ہوں‘ آپ کو کچھ چاہئے؟“ رابیکا اس کی موجودگی میں گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔
”جی چائے چاہئے کچھ سر میں درد ہے آفس سے بھی جلدی آگیا اسی وجہ سے۔“ وہ وہیں کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔
”آپ…. آ پ اپنے روم میں جائیں‘ میں چائے وہیں بھجواتی ہوں‘ رشیدہ آتی ہوگی۔“ اسے وہیں بیٹھتے دیکھ کر وہ بوکھلاہٹ چھپاتے ہوئے گویا ہوئی۔
”اوکے‘ ایکچوئیلی میں آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتا ہوں‘ کل رات میں نے آپ کو نہ معلوم کیا کیا کہہ دیا۔“ اس کی خوفزدہ حالت سے بے خبر وہ کہہ رہا تھا۔
”کوئی بات نہیں‘ مجھے برا نہیں لگا۔“ وہ کٹیل برنر پر رکھتے ہوئے بولی۔”لیکن میں بے حدگلٹی فیل کر رہا ہوں‘ مجھے احساس نہیں تھا کہ آپ یہاں ہو سکتی ہیں۔ کل رات آپ سے بات ہوئی تو مجھے خیال آیا۔ آ پ رابیکا تو نہیں ہیں کیونکہ ثاقب بھائی کے فیملی ممبرز کو میں جانتاہوں‘ میرا خیال درست نکلا۔“
•••••••••√√√√√••سعدی••√√√√√•••••••
”جی“ رابیکا کو شدید اختلاج ہونے لگا عمر جانہیں رہا تھا وہ اس پر عائد جبرو پابندیوں سے ناواقف ثاقب کی بیوہ اور اس گھر کی بہو سمجھ کر بہت احترام و مہذب انداز میں گفتگو کر رہا تھا اور وہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔ اگر کسی بھی لمحے فرح یا نمرہ میں سے کوئی آگئی اور عمر کو اس سے گفتگو کرتے دیکھ لیا تو وہ زندہ درگور کر دی جائے گی‘ اس خوف وپریشانی میں وہ اس سے نارمل طریقے سے بات نہ کر پا رہی تھی اور چاہتی تھی کیسی طرح وہ چلا جائے۔
”آپ کچھ کنفیوزڈ ہیں“ وہ اس کے اضطراب و بے چینی کو بھانپ گیا۔
”جی نہیں آپ اپنے روم میں جائیں۔ چائے اور ٹیبلٹ پہنچاتی ہوں۔“ عمر کو اپنی ہتک کا احساس ہوا مگر وہ کچھ سوچ کر کوئی سخت جملہ کہنے سے رک گیا۔”شاید آپ مجھے معاف نہیں کر سکی ہیں میری کل کی گستاخی پر۔“
”میں نے کہا نہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ چائے کے پانی میں ابال آچکا تھا۔ قہوے کی سوندی خوشبو وہاں پھیل گئی تھی۔ رابیکا نے فریج سے دودھ کا پیکٹ نکالتے ہوئے جواب دیا تھا۔ اسی لمحے گیٹ کھلنے کی آواز آئی اور دودھ کا پیکٹ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا وہ متوحش سی عمر کی طرف بڑھی۔
”خدا کے لئے آپ چلے جائیں یہاں سے ورنہ بہت برا ہوگا۔“ لمحے بھر میں اس کے چہرے کی سفیدی زردی میں بدل گئی۔ مارے خوف کے وہ کانپ اٹھی۔ عمر اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ مگر فوراً باہر آگیا۔
رشیدہ ہاتھ میں باسکٹ پکڑے اندر داخل ہو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر سلام کیا اور کچن کی جانب بڑھ گئی جہاں اسے دیکھ کر رابیکا کی جان میں جان آئی۔
پھر بہت جلد عمر کی نگاہوں میں رابیکا کی حیثیت اور فرح بیگم و نمرہ کی حقیقت آگئی۔ فرح بیگم جو مذہب پرست‘ صوم و صلوٰة کی پابند ہیں‘ پابندی سے دینی محفلوں میں شرکت کرتی ہیں گھر میں بھی اکثر درس و تدریس ہوتی رہتی ہے مگر ان کے مزاج و طبیعت میں کہیں بھی مذہبی اخلاص و رواداری‘ درگزرونرمی نظر نہ آتی تھی۔ اپنے سے کمتر لوگ خصوصاً رابیکا کے ساتھ ان کا رویہ بے حد خراب تھا۔ تمام معلومات اسے رشیدہ کی زبانی معلوم ہوتی رہتی تھیں پھر اس کی نگاہوں سے بھی کبھی کبھی فرح بیگم کی زیادتیاں گزر جاتی تھیں۔”کن سوچوں میں گم ہیں؟“اس کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر بلو جینز ریڈ اسٹائلش ٹی شرٹ میں سامنے کھڑی شارٹ بالوں کی اونچی پونی‘ ریڈنگینوں والے آویزے‘ گردن میں ویسا ہی نیکلس‘ میک اپ زدہ چہرے پر سب سے زیادہ نمایاں سرخ لپ اسٹک سے رنگے ہونٹوں والی نمرہ کو دیکھا تھا۔ وہ خوبصورت تھی۔ مگر باوقار نہیں‘ عمر نے نگاہیں پھیر کر کہا۔
”ممی‘ پاپا کا اصرار ہے میں کچھ دن چھٹی لے کر ان کے پاس رہوں‘ یہی سوچ رہا ہوں‘ ابھی جاﺅں یا پراجیکٹ ڈیزائن کرنے کے بعد۔“
”آپ کے لئے کیا پرابلم ہے۔ ویک اینڈ کو جائیں منڈے کو واپس آجائیں۔ ایک دن کی چھٹی آپ کی فرم افورڈ کر سکتی ہے۔“ وہ مسکراتی ہوئی سامنے بیٹھ گئی تھی اور مشورہ دیا تھا۔
”فرم کی جانب سے ایک بھی پریشر نہیں ہے مجھ پر مگر پراجیکٹ سے ایک دن کی لیو بھی فرم کے لئے بڑے نقصان کا باعث ہوگی‘ جو میں نہیں چاہتا کہ کسی کو میری وجہ سے پرابلم ہینڈل کرنے پڑیں۔“
”وہ نقصان آپ کا تو نہیں ہوگا‘ آپ چھٹی کر لیں۔“
”نہیں میں کام میں مکمل ایمانداری و دیانت داری برتنے کا عادی ہوں۔ میں کام عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔“ وہ مسکرا کر بولا۔
”واقعی! اتنے دیانت دار ہیں آپ۔“ نمرہ ہنس کر گویا ہوئی۔
”میں زندگی کے ہر معاملے میں دیانت داری سے کام کا عادی ہوں۔“
”ویری نائیس‘ پھر تو آپ ایک پرفیکٹ آئیڈیل پرسنیلٹی ہیں۔“ نمرہ اس کی جانب مخمور نگاہوں سے دیکھتی ہوئی گویا ہوئی۔”اب آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔“
”حقیقت بتا رہی ہوں گپ نہیں ہے یہ عمر“
”تھینکس‘ میں یہی کہہ سکتا ہوں۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
”میں آپ کے پاس آئی اور آپ جا رہے ہیں؟“
”سوری‘ مجھے ہوم ورک کرنا ہے آج کل ورکنگ ٹائمنگ بہت ٹف جا رہی ہے اس لئے یہاں آکر بھی ہوم ورک کرنا پڑتا ہے۔“ اس نے بڑی آسانی سے اس سے جان چھڑائی تھی۔
کیا ہوا؟موڈ کیوں آف ہے؟“ فرح بیگم نمرہ کی جانب دیکھتے ہوئے استفسار کرنے لگیں جو منہ بناتی کمرے میں آئی تھی۔
”عمر کو نہ معلوم کیا ہوگیا ہے‘ پہلے تو بڑے شوق سے میرے ساتھ باہر جاتے تھے مگر اب کچھ دنوں سے لفٹ ہی نہیں دیتے آج بھی کام کا بہانہ کر کے چلے گئے جیسے پوری فرم کو تنہا آپریٹ کر رہے ہوں۔“
”وہ انجینئر ہے‘ بڑی ذمہ داری ہے اس پر‘ کچھ دن صبر کرو۔“ وہ تمام وقت تمہارے لئے ہی نکالے گا۔“ انہوں نے قریب پڑے کپڑوں کے ڈھیر میں سے کچھ سوٹ علیحدہ کرتے ہوئے تسلی دی۔
”معلوم نہیں وہ وقت کب آئے گا؟“ وہ بیڈ پر نیم دراز ہو کر بولی۔
”بہت جلد مجھے پکا یقین ہے جس حساب سے وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے۔“ماں کی بات پر اس کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
”یہ پرانے کپڑے کیوں نکال کر بیٹھی ہیں؟“
”ثمرہ آئی تھی تو کہہ رہی تھی اس منحوس کے کپڑے بہت خراب ہو گئے ہیں۔ گھر جا کر عاطف باتیں کستے ہیں کہ ہم نے اسے نوکروں سے بدتر حلیے میں رکھا ہوا ہے۔ادھر عمر بھی اس کے بارے میں جان چکا ہے کسی نہ کسی طرح اس سے سامنا ہونے کا امکان رہتا ہے‘ یہی سوچ کر میں نے اپنے کچھ سوٹ نکالے ہیں بیٹا۔ یہ دامادوں کی ذات بڑی طوطا چشم ہوتی ہے‘ ذرا ذرا سی بات پر آنکھیں بدلنے لگتی ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر ان سے تعلقات بہتر رکھنے پڑتے ہیں۔“
”یہ عاطف بھائی کا نوابی پن مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا‘ کھانے پینے کے اتنے شوقین ہیں ہر چیز کھاتے ہیں اور ساتھ میں نقص بھی نکالتے ہیں۔“
”اب کیا کریں بیٹی دی ہے تو نخرے اٹھانے پڑیں گے۔“ وہ چند سوٹس ان میں سے نکالتے ہوئے بولیں۔
٭٭٭
ہال روم میں درس کا پروگرام ہو رہا تھا۔ فرح بیگم خوش مزاجی‘ خلوص و مروت‘ رواداری و عجزو انکساری کی مجسم صورت بنی بیٹھی تھیں۔ بہت اچھا بیان کیا تھا۔ انہوں نے یتیموں ‘ بیواﺅں کے حقوق پر تمام خواتین متاثر ہوئی تھی۔ وہ آکر بیٹھ گئی تھیں۔ دوسری خاتون شرعی پردے پر بیان شروع کر چکی تھی۔ رشیدہ سب کو چائے سرو کر کے وہیں بیٹھی سن رہی تھی۔
کچن میں رابیکا رات کے کھانے کے تیاریوں میں لگی ہوئی تھی جب عمر وہاں دبے قدموں داخل ہوا تھا۔ رابیکا نے اسے دیکھ کر سنک میں چکن دھوتے ہوئے بولنا چاہا تھا مگر اس سے قبل عمر کہہ اٹھا۔”اوہ…. آپ! کیا چاہئے؟ آپ اپنے کمرے میں جائیں‘ رشیدہ لے آتی ہے۔ یہی کہنے والی تھیں نا آپ؟“ وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر اس کے انداز میں بولا تھا۔ انداز سنجیدہ مگر آنکھوں میں شوخی تھی لیکن رابیکا اس کے انداز پر مسکرا بھی نہ سکی۔ صرف دانتوں سے ہونٹ کاٹ کر رہ گئی۔
”جی …. چائے پئیں گے آپ؟“ رابیکا کے لہجے میں ناپسندیدگی در آئی تھی۔
”اگر یہیں بیٹھ کر چائے پینے کی اجازت دیں تو….“
”آپ کہاں جا رہی ہیں؟ “ جواب میں رابیکا نے اس کے آگے چائے کا مگ رکھا اور خود کچن سے باہر جانے لگی تو وہ استفسار کر بیٹھا۔”آپ یہاں بیٹھیں گے تو مجھے باہر جانا ہوگا۔“
”ایسا کیوں؟…. آپ خود کو اتنا الگ تھلگ کیوں رکھتی ہیں؟ نمرہ بھی اس گھر میں آپ کی ہم عمر ہے وہ بہت انڈیپینڈنٹ لائف جی رہی ہے پھر آپ کیوں خول میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔“
”نمرہ اس گھر کی بیٹی ہے اور میں بہو! بلکہ کچھ نہیں ہوں۔“
”آپ اپنی سوچ کو بدلیں‘ بہت کچھ ہیں آپ!“
”عمر صاحب! آپ اپنے کام سے کام رکھیں تو زیادہ بہتر ہے میں کیا ہوں‘ کیوں ہوں آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس کے دھیمے انداز میں سختی درآئی تھی جبکہ عمر کے لبوں پر گہری مسکراہٹ۔
”تھینکس گاڈ! آپ کو بولنا آتا ہے ورنہ میں سمجھ رہا تھا آپ کو ڈرنے‘ خوفزدہ ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا“ وہ چائے کے سپ لیتا ہوا بولا۔ وہ خاموشی سے کچن سے نکل گئی۔ عمر مسکراتا رہا۔
پھر عموماً وہ اسے موقع دیکھ کر بہادری و زندہ دلی کی ترغیب دینے لگا تھا اور وہ جو شروع شروع میں اس سے ڈرتی تھی‘ خوفزدہ رہتی تھی‘ خاصی حد تک وہ خوف و ڈر دور ہو چکا تھا کیونکہ وہ ایسے وقت میں انٹری دیتا تھا جب فرح بیگم یا نمرہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔اس کی معاونت کرنے والی رشیدہ تھی وہی اسے گھر کے تمام حالات سے باخبر رکھتی تھی۔ رشیدہ کو رابیکا سے بہت ہمدردی و محبت تھی۔ عمر کی حوصلہ مند باتوں نے اسے ہمت دی تھی جو وہ رابیکا سے متعلق ہر بات اس سے شیئر کرنے لگی تھی رابیکا کو بتائے بغیر۔
عاقب آج کل کاروباری الجھنوں میں عمر کو بہت کم وقت دے پا رہا تھا۔ عمر کئی بار نمرہ کو ایک نوجوان کے ساتھ مختلف مقامات پر دیکھ چکا تھا۔ فرح بیگم کی منافقت پسند شخصیت پر اسے اعتماد نہ تھا اس لئے وہ عاقب سے بات کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ نمرہ کی بے راہ روی کا نوٹس لے وہ گھر میں ہوتی تو اس پر دل و جان نچھاور کر دینے کو تیار ہوتی اور باہر اس لڑکے کے ساتھ اس طرح بے تکلفی سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتی جیسے اس سے بڑھ کر کوئی عزیز نہ ہو۔آج اس نے ڈنر پرل میں اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ کیا اور وہیں نمرہ کو اس لڑکے کے ساتھ پھر دیکھا تھا۔ نمرہ اسے نہ دیکھ پائی تھی۔ عاقب آج گھر میں مل گیا تھا مگر بہت تھکا تھکا سا اس نے ایسے میں کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا کچھ دیر فرح بیگم کے پاس بیٹھ کر اپنے روم میں آگیا۔ سیل فون سے گھر پر بات کی پھر کپڑے بدل کر باہرریلنگ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ بے ساختہ نگاہ معمول کے مطابق برگد کے درخت کی جانب اٹھیں پھر نا کام لوٹ آئیں وہ وہاں نہیں تھی۔ اس رات کے بعد سے وہ پھر وہاں نظر نہیں آئی تھی مگر اس کی نگاہیں بے ارادہ اس جانب اٹھتی تھیں۔ اس کے اندر بے کلی سی پھیلنے لگی۔ رابیکا کا تصور ہمہ وقت اس پر حاوی رہنے لگا تھا۔نہ معلوم یہ جذبہ ہمدردی تھا یا…. مگر وہ خود کو اس کے تصور سے آزاد نہیں کر پاتا تھا اور اس کی یہ دیوانگی رابیکا سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے ساتھ رویہ بہت سخت و کھردرا رکھتی تھی مگر اس پر کوئی اثر نہ تھا۔ اس کی سوچوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے وہ کمپیوٹر اوپن کرکے بیٹھ گیا۔کافی دیر کام کرتا رہا پھر چائے کی طلب ہوئی تو سوچا رشیدہ سے کہے مگر یاد آیا آج وہ چھٹی پر تھی وہ خود اٹھ کر کچن کی طرف آگیا۔ کچن کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لائٹ بھی روشن تھی۔ وہ اندر گیا تو رابیکا اسے اس وقت دیکھ کر بوکھلا ئی پھر تیزی سے اپنے آگے رکھی پلیٹ کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ دیا عمر کی عقابی نگاہیں پلیٹ میں پتلی دال دیکھ چکی تھیں۔ رابیکا کے جھکے ہوئے چہرے پر پھیلتی ندامت و خفت‘ کم مائیگی کا احساس اسے بھی اس لمحے بری طرح نادم کر گیا۔ رابیکا کی بے بسی و لاچاری کو اس سمے اس نے پوری طرح محسوس کیا تھا۔ دونوں کے درمیان کچھ لمحے تکلف زدہ خاموشی رہی تھی جس کو رابیکا کی آواز نے توڑا۔”ٹھنڈے پانی کا کولر یہاں رکھا ہے۔“ وہ خوف پر قابو پا کر پر اعتماد لہجے میں گویا ہوئیں۔ ساتھ اس نے آہستگی سے پلیٹ آگے سرکا دی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ عمر کی نگاہیں پلیٹ میں تیرتی دال اور باسی روٹی پر تھیں۔ اس چار کرسیوں والی چھوٹی سی ٹیبل پر صرف ایک دال کی پلیٹ اور روٹی رکھی ہوئی تھی۔ اس کی نگاہوں میں انواع و اقسام سے بھری ڈائننگ ٹیبل گھوم گئی جو تینوں ٹائم اس کے آگے سجائی جاتی تھی اور کھانا بچتا تھا۔
”سوری میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا‘ آپ کھانا کھائیں۔“”میرا دل نہیں چاہ رہا تھا بس ایسے ہی بیٹھ گئی تھی۔“
عمر نے فریج کھولنا چاہا تو وہ لاکڈ تھا۔ وہ سخت حیران ہوا مگر پھر فوراً ہی اس کے ذہن میں رشیدہ کی بات گونجنے لگی جو بتا چکی تھی کہ بیگم صاحبہ رات کو بچا ہوا کھانا اپنی نگرانی میں فریج میں رکھوا کر تالا لگا دیتی ہیں تاکہ دوپہر کو وہی کھانا استعمال ہو کیونکہ عمر اور عاقب لنچ عموماً باہر ہی کرتے ہیں۔ گھر کے ملازموں کے لئے دال یا سبزی بنتی تھی وہ آج دیکھ چکا تھا۔
پانی لے کر وہ رکا نہیں سیدھا کچن سے نکلتا چلا گیا۔دوسرے دن رات کو اس نے کھانا نہیں کھایا اور عین اس وقت کچن میں پہنچ گیا جب رابیکا کھانے کے لئے بیٹھی ہی تھی کیونکہ وہ کچن کے تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد کھانا کھاتی تھی۔ اس وقت پھر عمر کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔ وہ اطمینان سے اس کے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”ہوں! یہ مجھے کل معلوم ہوا کہ اچھا مال آپ تنہا کھاتی ہیں ہمیں ایسا ویسا کھلاتی ہیں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کھانا آپ کے ساتھ کھایا کروں گا۔“ وہ اس کے سامنے رکھی روٹی میں سے آدھی روٹی توڑ کر اپنے آگے رکھے ہوئے بولا۔ پلیٹ میں آلو بینگن کا سالن تھا جو وہ بڑی رغبت سے کھاتا تھا۔
”آپ بھی کھائیں نا‘ کیوں ایسے بیٹھی ہیں؟“
”میں نے کیا بگاڑا ہے آپ کا؟ کیوں مجھے ذلیل و خوار کروانے کے جنون میں مبتلا ہیں‘ میری زندگی مجھ پر پہلے ہی بوجھ ہے اس بوجھ کو مزید کیوں بڑھا رہے ہیں؟“ وہ شدت سے رو پڑی۔ عمر کھانا بھول کر پریشانی سے اسے دیکھنے لگا جو روئے جا رہی تھی۔”پلیز…. پلیز روئیں مت‘ میرا ارادہ آپ کو رُلانے کا نہ تھا۔
”آپ جائیں یہاں سے۔“ وہ روتے ہوئے بولی۔
”آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔“
”آ پ میرا پیچھا چھوڑ دیں‘ میں آپ کو سمجھنا نہیں چاہتی۔“
”یہ زندگی نہیں کہلاتی جو آپ گزار رہی ہیں۔ عزت نفس و خودداری کا گلا گھونٹ کر آپ خود کو زندہ سمجھتی ہیں؟“ اس نے پھر اس پتھر میں ضرب لگانے کی سعی کی۔
”اگر چلتی سانسوں کا نام زندگی ہے تو میں زندہ ہوں ورنہ دنیاوی اعتبار سے میں اسی دن مر گئی تھی جب ثاقب اس دنیا سے چلے گئے تھے۔۔“ ثاقب کا ذکر کرتے ہوئے دکھ کی نئی برسات اس کی آنکھوں میں امڈآئی۔
”لوگ مجھے منحوس کہتے مجھے نفرت و حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ایسا کیوں ہے جو ہو چکا‘ جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا وہ سب کاتب تقدیر کا تحریر کر دہ ہے زندگی میں واقعات و حادثات ہوتے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ مجھے لوگوں کی باتوں پر یقین آنے لگا جس نے مجھے چاہا وہ اس دنیا میں نہ رہا‘ میرے ماں‘ باپ‘ چچا‘ استاد اور پھر ثاقب میری نحوست و بدبختی کا شکار بنتے چلے گئے۔“
”ابھی آپ نے خود کہا یہ سب کاتب تقدیر کا لکھا ہوتا ہے پھر….“
”پلیز…. میں نہیں چاہتی کہ آج کے بعد ہمارے درمیان کوئی بات ہو۔“
رابیکا اس کی بات قطع کر کے سرد مہری سے گویا ہوئی۔
”میں آپ کی عزت کرتا ہوں اور….“
”پلیز عمر صاحب! آپ جائیں یہاں سے کوئی آگیا تو کیا ہوگا‘ کیا جواز پیش کریں گے اس وقت یہاں اپنی موجودگی اور شاید آپ کو تو کچھ نہ کہا جائے گا مگر میرے لئے کوئی دوسری جائے پناہ نہ ہوگی۔“