پورا گھر چم چم کر رہا تھا۔ڈرائنگ روم کی سیٹنگ بدلی گئی تھی۔ نئے پردے‘ قالین اور فرنیچر کے علاوہ قدرتی مناظر سے دلکش نظر آتی دلآویز سینری سے دیواروں کو انوکھا حسن مل گیا تھا۔ بیڈ روم‘ لاﺅنج‘ لابی‘ رومز‘ لان اور گیسٹ روم میں آرٹسٹک مائنڈ اور سلیقہ مند ہاتھوں کا ہنر جادواں تھا۔
کچن میں کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں وہ خاموشی سے ٹرے میں سلاد ڈیکوریٹ کر رہی تھی جب لیمن کلر کے جارجٹ سوٹ میں فریش سی فرح بیگم اندر داخل ہوئی اور ایک طائرنہ نگاہ صاف ستھرے کچن پر ڈال کر اس سے مخاطب ہوئیں۔
”تمام چیزیں تیار ہیں؟“ ان کی بارعب آواز میں شدید کبیدگی و تلخی تھی۔
”جی…. سب تیار ہے۔“ فرح بیگم کو دیکھ کر حسب معمول رابیکا کا ہاتھ و دل لرزش کا شکار ہو چکا تھا۔ مارے رعب کے وہ ان سے یونہی خوفزدہ رہتی تھی۔
”کان کھول کر سنو جب تک عمر یہاں رہے گا اس کے سامنے اپنا یہ منحوس وجود لے کر مت آنا تاکہ وہ تمہاری نحوست سے دور رہے ۔ تمہارے منحوس سائے سے اس گھر کی خوشیوں کی بچانے کے لئے میں نے ایک ملازمہ کا انتظام کیا ہے۔ عمر کی موجودگی میں وہ یہاں رہے گی۔“ ایک کے بعد ایک نفرت بھرے الفاظ ان کے منہ سے نکلتے چلے گئے اور وہ گھائل ہوتی گئی ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا۔ ایسے القابات وہ بچپن سے سنتی آرہی تھی۔منحوس وجود
سبز قدموں کی نحوست
بچپن سے جوانی تک وہ خود کو ان ہی دائروں کے حصار میں چکراتی دیکھتی آئی تھی۔ اس کی ذات پر نحوست کا ایسا لیبل لگا تھا کہ وہ اپنا حقیقی نام بھول چکی تھی اگر کوئی بھولے بھٹکے اس کو اس کے اصل نام سے پکارتا تووہ فوراً نہیں پلٹتی تھی۔ بڑا اجنبی اورغیر شنا سا لگتا اسے اپنا نام ۔ عجیب بات تھی بچپن سے ایسے لفظوں و طعنوں سے گھائل و عادی ہونے کے باوجود وہ ان لفظوں‘ طعنوں ‘ نفرت انگیز رویوں‘ حقارت آمیز نگاہوں کو نظر اندازکرنا نہ سیکھی تھی۔ ہر روز اسے ایسی نگاہوں و زبان کے خنجروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور وہ ڈھیٹ یا لاپروا بننے کے بجائے ہر زخم سے اٹھتی ٹیسوں پربے آواز سسکتی تڑپتی رہتی تھی۔ عاقب کا دوست ٹرانسفر ہونے کے باعث اسلام آباد سے یہاں آرہا تھا۔ عمر خان ماں باپ کا اکلوتا چشم و چراغ اعلیٰ خاندان و ہائی اسٹیٹس والا بندہ جو قسمت سے کنوارا بھی تھا فرح بیگم کی عقابی نگاہوں و شاطر فطرت فوراً الرٹ ہو گئی۔
وہ کافی عرصے سے نمرہ کے لئے کسی ایسے لڑکے کی تلاش میں تھیں مختصر فیملی‘ اونچا خاندان‘ دولت و شہرت اور لڑکا بھی اکلوتا ان کی مراد برآئی۔ عاقب نے سرسری ذکر کیا تھا کہ اس کے دوست عمر کا یہاں ٹرانسفر ہو گیا ہے۔ فرم کی جانب سے گھر ملنے میں کچھ وقت لگے گا تب تک وہ ہوٹل میں رہے گا۔ فرح بیگم مچل گئیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے ان کا گھر ہوتے ہوئے عمر ہوٹل میں رہے۔ پہلے تو عمر مانا نہیں مگر فرح کے بے حد اصرار پر مجبور ہو کر اس نے حامی بھر دی اور اسی دن سے فرح بیگم جو ہاتھوں کے بجائے دانتوں سے پیسہ خرچ کرنے کی عادی تھیں۔ بڑے کھلے دل سے بڑے بڑے نوٹ خرچ کرنے لگی تھیں۔
پورے روحیل ولا کی ازسرنو تزئیں و آرائش کی گئی تھی جس کا سارا بوجھ رابیکا کے کاندھوں پر تھا جس کی رات دن کی انتھک محنت‘ سلیقہ مندی کے باعث‘ ہر شے چمچمارہی تھی آج عمر کو آنا تھا۔
صبح سے وہ کچن میں مصروف تھی۔عاقب کے ہمراہ نمرہ عمر کو ریسیو کرنے ایئر پورٹ گئی ہوئی تھی۔ کچن سے فارغ ہو کر اس نے ٹیبل سیٹ کی تھی اور کمرے میں چلی آئی۔ عصر کی اذان ہو چکی تھی۔ وہ وضو کرنے بیسن کی جانب بڑھ گئی۔
عمر کی شخصیت باغ و بہار تھی۔
اس کی آمد نے روحیل و لا کی اداسی و خاموشی میں ہنسی کے جلترنگ بجا دئیے تھے۔ وہ بہت بولنے کا عادی تھا۔ بہت دلچسپ گفتگو کرتا تھا۔ جب سے وہ آیا تھا نمرہ کے قہقہے بے قابو ہو گئے تھے۔ فرح بیگم بھی مسکرانے لگیں عاقب نے ایک ہفتے تک اسے بھرپور کمپنی دی تھی پھر اس کے اصرار پر وہ آفس جانے لگا تھا۔ آفس سے واپسی پر وہ دونوں اکثر باہر نکل جاتے اور ان کی واپسی کھانے کے بعد ہوتی تھی۔
نمرہ بے حد خوش رہنے لگی تھی۔ اکثر وہ عمر کے ساتھ باہر جاتی تھی۔فرح بیگم ازخود انہیں موقع دیتیں۔ ساتھ بیٹھنے کا‘ باتیں کرنے کا۔ عمر سے عاقب کی دوستی بہت پرانی تھی۔ عمر کے والد آرمی میں تھے۔ ان کی پوسٹنگ کراچی میں ہوئی اور کئی سال وہ کراچی میں رہے تھے۔ ان کے برابر والے بنگلے میں تب سے ان گھرانوں میں دوستی کی بنیاد پڑی تھی جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو گئی۔ روحیل صاحب بہت اعلیٰ اخلاق شیریں مزاج کے مالک تھے۔ عمر کے والد جبران خان سے گہری دوستی تھی۔ دونوں بیگمات میں بھی خاصی محبت تھی۔ جبران خان کی پوسٹنگ کراچی سے دوسرے شہر اور شہر در شہر ہوتی رہی تھیں لیکن ان کی دوستی برقرار رہی تھی۔ پھر عمر اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلا گیا۔ روحیل صاحب کی ڈیتھ ہو گئی۔ عاقب سے بڑا ثاقب امریکہ چلا گیا تھا۔ بزنس کے سلسلے میں عاقب پڑھائی اور گھر کی ذمہ داریوں میں الجھ کر عمر سے مستقل رابطہ نہ رکھ سکا تھا۔ ان کے درمیان کم رابطہ رہتا تھا۔ پانچ سال بعد وہ پھر مل بیٹھے تھے۔ پرانے مراسم ازسرنو استوار ہو ئے تھے۔
رات کھانے کی میز پر وہ چاروں موجود تھے۔ ماں کے اشاروں پر نمرہ بڑھ بڑھ کر اسے ڈشز پیش کر رہی تھی جو وہ شکر یہ کہہ کر پلیٹ میں ڈال رہا تھا۔ اس کے برابر میں بیٹھا عاقب بھی کچھ نہ کچھ اس کے آگے رکھ رہا تھا۔ جبکہ عمر کھانا کھاتے ہوئے باتیں بھی کر رہا تھا۔ مگر اس کی متجسس نگاہیں ڈائننگ روم سے ملحقہ راہداری کی سمت بار بار اٹھ رہی تیں جس سمت کچن تھااور ملازمہ رشیدہ گرم گرم پھلکے اس طرف سے لے کر آرہی تھی۔
”کیا ہوا بیٹا! رک کیوں گئے؟ کھاﺅ نا۔“ فرح بیگم اس کا ہاتھ رکتا دیکھ کر بولیں تووہ فوراً سنبھل گیا۔
”میں کھا رہا ہوں۔ اصل میں کھانا اتنا ٹیسٹی ہوتا ہے کہ پیٹ بھر جاتا ہے مگر نیت نہیں بھرتی۔“ اس کے لہجے میں حقیقی ستائش تھی فرح بیگم کے چہرے پر منافقانہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔”جب میں بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی تو سب لوگ میرے پکائے ہوئے کھانوں کے گرویدہ تھے۔ روحیل کے فرینڈ فرمائشیں کرتے تھے اب مجھ سے زیادہ ذائقہ نمرہ کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ بہت عمدہ گوکنگ کرنے لگی ہے۔“ وہ عاقب کے ہونٹوں پر درآنے والی تلخ مسکراہٹ نظر انداز کر کے گویا ہوئیں۔
”ارے…. اتنی اچھی کوکنگ نمرہ کرتی ہیں؟ نمرہ! ویری ایکسیلنٹ اینڈ ونڈر فل کوکنگ۔“ وہ مسکراتی ہوئی نمرہ کو دیکھ کر بولا جبکہ فرح بیگم نے تیز نگاہوں سے عاقب کو گھورا جو کچھ کہنا چاہتا تھا۔
”صرف خالی خولی شاباش سے کام نہیں چلے گا آپ کو باہر کسی اچھے انوپی سے آئسکریم کھلانی ہو گی۔“اس ادا سے وہ اٹھلا کر بولی گویا حقیقتاً ساری محنت و جانفشانی میں اس کی ذات ملوث ہو۔
”یقیناً‘ یقیناً ابھی چلتے ہیں۔“ وہ راضی تھا۔
”میں نہیں جا سکوں گا یار!“ عاقب نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا۔
”کوئی معذرت نہیں چلے گی‘ چلو نا یار! اس طرح کچھ واک ہو جائے گی۔“”بھائی ایسے ہی کرتے ہیں مگر آپ ان کی باتوں میں نہ آئیں۔“
”آپ نمرہ کو لے کر چلے جاﺅ‘ عاقب تھکا ہوا ہے کل آپ کے ساتھ جائے گا۔“ فرح بیگم نے عاقب کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر انہیں جلد روانہ کر دیا تھا اور ان کے جاتے ہی وہ اس کے کمرے میں چلی آئی تھیں۔
”کس بات نے تمہارا دماغ اتنا خراب کر رکھا ہے‘ کیوں تمہارے لبوں پر اس قدر طنزیہ مسکراہٹ رہنے لگی ہے؟ آخر چاہتے کیا ہو تم؟“ وہ آتے ہی کسی طاقتور بم کی طرح بلاسٹ ہوئی تھی۔
”مما! جھوٹ اور مبالغہ آرائی کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن آپ اور نمرہ وہ تمام حدیں پار کرتی جا رہی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ محنت کوئی اور کرے اور داد دوسرا وصول کرے؟“ عاقب کی دھیمی آواز میں ملال‘ تاسف اور طنز کی آمیزش تھی۔
”تمہیں اس ڈائن کی طرفداری بہت کرنی آتی ہے‘ بہن کی فکر نہیں ہے بھائی بہنوں کے گھر بسانے کے لئے ڈھیروں جتن کرتے ہیں ایک تم ہو جس کو فکر ہی نہیں ہے الٹا بات بگاڑنے کی کوشش میں ہو۔”بہت غلط طرز سوچ ہے آپ کی ‘ بیٹی اور بہن کی شادی کرنے کے یہ طریقے سطحی ہیں اس طرح جھوٹ بول کر‘ کسی شخص کو فریب دے کر گھر بسائے نہیں جاتے بلکہ گھر بسانے سے قبل گھر اجاڑنے کے حماقتیں ہوتی ہیں۔“
”تمہارے منہ میں خاک‘ بس یہی کسر رہ گئی تھی تمہارے کہنے کی۔“ وہ شدید غصے سے جھلا کر بولیں۔
”مما…. مما! مجھ سے بدگمان مت ہوں۔“ وہ ان کے قریب آکربولا۔
”تم نے خوش گمانی کی کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ہے۔“
”سوری مما! مجھے آپ سے اور نمرہ سے بہت محبت ہے مگر بھابی کے ساتھ آپ کا رویہ مجھے پشیمانی میں مبتلا کرتا ہے وہ بھی اس گھر کی فرد ہیں بہت معتبر تعلق ہے ان کا ہم سے اور ان گھر سے۔“”خبردار جو تم نے آگے مزید کچھ کہا۔“ وہ شدید اشتعال انگیز لہجے میں بولی۔ ”نہیں ہے کوئی تعلق اس کا ہم سے اور اس گھر سے۔“
”پھر کیوں رکھا ہوا ہے آپ نے انہیں یہاں واپس بھجوائیں ان کے گھر مفت بیگار کے لئے رکھا ہوا ہے۔“
”اس کے منحوس وجود سے سب خوفزدہ رہتے ہیں۔ کب اس کی نحوست کس کو نگل جائے بھروسہ نہیں کسی کو یہ تو میرا ہی حوصلہ ہے جو ایک بیٹا گنوا کر بھی اس سبز قدم کو گھر میں بٹھا رکھا ہے جس گھر کی دہلیز کو وہ سرخ سہاگن کے سوٹ میں عبور کرتی‘ وہ اس نے بیوگی کے سفید جوڑے میں عبور کی‘ جس جگہ مسرتوں کے شادیانے بج رہے تھے وہاں دکھوں و آہوں کا ماتم بچھا دیا اس بدبخت نے۔ میرے بیٹے نے اس کا چہرہ دیکھنے سے قبل موت کا چہرہ دیکھ لیا‘ سہاگ کی سیج کی بجائے قبر کی آغوش میں جالیٹا۔ آہ….!“ وہ تیز تیز کہتے ہوئے رونے لگی تھیں۔ ان کی بلند آواز رشیدہ کے ساتھ کام سمیٹتی رابیکا کے کانوں میں بآسانی پہنچ رہی تھی‘ رابیکا تیزی سے برتن اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔ اس کی نم آنکھیں رشیدہ دیکھ چکی تھی۔
مما! یہ تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں پھر موت کا ایک دن مقرر ہے اس میں کسی کی بدبخی و خوش بختی کا دخل نہیں ہوتا‘ مقدر ہاتھ سے لکھنے والی شے نہیں ہے اور مما لوگ کہتے ہیں تو کہنے دیں مگر آپ کہتی ہیں تو مجھے بے حد دکھ و افسوس ہوتا ہے کیونکہ آپ ایک مذہبی عورت ہیں۔ دین کی پاسداری‘ اخوت واخلاص‘ درگزر ومروت کے فوائد کو جانتی ہیں‘ ہمارے دین میں ایسی تو ہم پرستی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ نحوست‘ بدشگونی ایسے عقیدے ہمارے مذہب میں نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کو یہی درس دیتی ہیں۔“ انہیں خاموشی دیکھ کر وہ کچھ باحوصلہ ہو کر مزید بولا۔
”پرسوں مسرت آنٹی آپ سے اپنی بہو کی شکایت کر رہی تھیں تو آپ نے کہا تھا کہ اصل بیٹی تو دراصل بہو ہی ہوتی ہے۔ اپنی بیٹی پرائی ہو جاتی ہے اور وہ پرائی بیٹی جو بہو بن کر آتی ہے تاحیات اپنی بن کر رہتی ہے پھر اگر وہ کچھ دن نخرے دکھائے بدسلوکی کرے تو برداشت سے کام لینا چاہئے آپ کا صبر و اچھا سلوک دیکھ کر وہ ازخود آپ کی گرویدہ ہو جائے گی‘ یہی کہا تھا نہ آپ نے؟“
”ہاں کہا تھا پھر؟“ ان کے تیور بگڑنے لگے۔
”گھر سے باہر لوگوں کو آپ خوف الٰہی و حقوق العباد کی تلقین کرتی ہیں اپنی جیسی عورتوں کو مشورے دیتی ہیں کہ وہ بہوﺅں کے برے سلوک پر بھی برداشت و تحمل کا مظاہرہ کریں اور خود آپ کیا کررہی ہیں؟ صابر‘ محنتی و بے انتہا خدمت گزار بہو کی ہر لمحہ تذلیل و توہین کرتی ہیں۔ یہ قول و فعل کا تضاد‘ چراغ تلے اندھیرا والی مثال کیوں مما؟“
”آخر کار چل گیا نا اس منحوس کا جادو تم پر بھی‘ بس مجھے اسی دن کا خوف تھا کہ تم اس کے حسن کے سحر میں جکڑ کر مجھ سے سوال کرو گے۔“ انہوں نے آنکھیں نکالتے ہوئے اس انداز سے کہا کہ وہ ان کی سطحی ذہنیت پر بھونچکارہ گیا۔ اسے ماں سے ایسی گراوٹ کی توقع نہ تھی۔
”مما! خدا کے لئے کچھ تو خیال کریں وہ میرے لئے قابل احترام ہیں۔“
انہوں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور سیدھی کچن کاﺅنٹر صاف کرتی رابیکا کے پاس آئیں اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ ڈالا۔
”بدچلن! بدکردار! ایک بیٹے کو کھا گئی اور دوسرے کے ساتھ منہ کالا کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے لیکن تیری ایسی آرزو میں ہر گز پوری نہیں ہونے دوں گی‘ جس طرح میرا بیٹا تڑپ تڑپ کر مرا ہے تجھے بھی ایسے ہی سسک سسک کر مرنا ہوگا۔“ وہ پھولی سانسوں کے ساتھ اس سے کہہ رہی تھی۔”آنٹی! عاقب مجھے بھائی کی طرح عزیز ہے میں ایسا نہیں سوچ سکتی۔“ ان کے تھپڑوں سے زیادہ تکلیف اس الزام نے دی تھی وہ بول پڑی تھی۔
”چپ کر منحوس ! کاٹ دوں گی زبان تیری جو آئندہ چلی۔“ وہ جس طوفانی رفتار سے آئی تھیں ایسے ہی چلی بھی گئی تھیں۔
”بھابی جی! بیگم صاحبہ تو بہت ظالم ہیں باہر تو لوگ ان کو بہت اللہ والی سمجھتے ہیں‘ بہت تعریف کرتے ہیں ان کے درس کی‘ ان کے وعظ کی‘ دین کی بہت اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں اور یہاں گھر میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جو یہ لوگوں کو بتاتی ہیں۔“ رشیدہ اندر آکر اس سے حیرانگی سے مخاطب ہوئی جو اپنے آنسو ضبط کرنے کی سعی میں تھی۔
”یہ سب میرے نصیب کی خرابی ہے۔“ اس کے سپاٹ انداز نے رشیدہ کا منہ بند کر دیا تھا مگر اپنے جسم سے اٹھتی درد کی ٹیسوں کو نہ روک پائی۔
٭٭٭
رات کافی پُر کیف و روشن تھی۔
موسم سرما رخصت ہو چکا تھا۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی۔ جاتی سردیوں کی معمولی سی خنکی فضا کو خوشگواریت بخشے ہوئے تھی۔ گلاب کی روح پرور خوشبوﺅں سے معطر ہوائیں دل و دماغ کو تازگی ولطافت سے مسحور کر رہی تھیں۔ عمر گیلری میں کھڑا نیچے لان میں دیکھ رہا تھا۔
رات کا پہلا پہر تھا۔
وہ اپنی مخصوص جگہ پر موجود تھی۔ جہاں وہ اسے مسلسل کئی دنوں سے بیٹھا دیکھتا آرہا تھا۔ لان کا وہ حصہ جو ملازموں کے کوارٹر سے ملحقہ تھا اور وہاں برگد کے درختوں کی بڑی بڑی شاخوں نے چھوٹے سے جنگل کا روپ دھار لیا تھا وہ اسی جگہ روزانہ بیٹھی نظر آتی تھی کسی گہری سوچ کی ندی میں ڈوبی ہوئی اردگرد سے بیگانہ بہت کوشش کے باوجود وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا تا تھا کہ اس وقت ہر طرف اندھیرے کا راج ہوتا تھا۔لان میں جلنے والی نائٹ لائٹس کی مدہم روشنیاں اندھیرے پر غالب آنے کے لئے کافی تھیں۔وہ وہاں آیا تو شروع شروع میں گھر سے دوری کے سبب اسے نیند نہیں آتی تھی۔ ویسے بھی نئی جگہ ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ وہ نیند نہ آنے کے سبب گیلری میں آکر کھڑا ہو گیا تب پہلی مرتبہ اس کی نگاہ اس جانب اٹھی تھی۔ پھر دوسرے دن بھی وہ اسے وہیں بیٹھی نظر آئی۔ تیسری رات خودبخود اس کے قدم کمرے سے اٹیچڈ گیلری کی جانب اٹھ گئے۔ وہ وہیں بیٹھی تھی۔ سوچوں میں گم‘ دنیا و مافیہا سے بے خبر اب اس کا معمول بن گیا تھا۔ وہ گیلری میں آکر کھڑا ہو جاتا اور اسے دیکھتا رہتا جو شاید رات کی اس تنہا تاریکی میں تازہ ہوا اور آزاد ماحول میں کچھ وقت گزارنے آجاتی تھی۔ وہ بہت کم وقت وہاں بیٹھتی تھی اور پھر کوارٹر کی سمت گم ہو جاتی تھی۔
عمر کی کھلنڈری و چلبلی طبیعت کے اندر تجسس مچلنے لگا تھا۔وہ کون ہے؟
جو گھر میں رہتی تھی مگر سامنے نہیں آتی تھی۔ وہ گھر کے سب افراد سے واقف تھا۔ فرح آنٹی‘ نمرہ‘ ثمرہ آپی جو اپنے سسرال میں تھیں یہاں کی اکلوتی ملازمہ رشیدہ۔ اس کے باوجود کوئی پر اسرار وجود تھا جو اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلاتا کچن سے لے کر اس کے گیسٹ روم تک ان دیکھے وجود کی سلیقہ مندی و نفاست اسے متجسس کر چکی تھی۔ آج اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یقیناً وہی وجود ہے جو رات کی تاریکی میں برگدکی بوڑھی شاخوں سے اپنا دکھ اپنے احساسات شیئر کرتا ہے۔ اس اسرار سے پردہ اٹھا کر رہے گا پہلے اس نے گیلری سے جھانک کر اس کی موجودگی کی تصدیق کی اور پھر دبے دبے قدموں سے سیڑھیاں اتر کر اس جانب چل پڑا اور اس کے قریب گیا تو معلوم ہوا وہ گھٹنوں میں چہرہ چھپائے رو رہی ہے اس کی دھیمی دھیمی سسکیاں اسے ڈسٹرب کر گئیں۔”السلام علیکم“ وہ واپس لوٹنے کی خواہش کو دبا کر آہستگی سے سلام کر بیٹھا۔ جواباً ردعمل بڑا غیر متوقع تھا۔ اس کی آواز سن کر وہ اس طرح کھڑی ہوئی گویا اسے چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔
”آ….آ….آپ!“ خوف سے اس کی آواز بری طرح لرز رہی تھی۔
”ارے آپ اتنا ڈر ئیے مت‘ میں انسان ہوں‘ کوئی بھوت نہیں‘ میرا نام عمر جبران خان ہے۔ اسلام آباد سے یہاں آیا ہوں‘ عاقب کا دوست ہوں اور عاقب کی فیملی سے بہت اچھے ریلیشن ہیں میری فیملی کے۔ یہ تھا میرا تعارف اب آپ بتائیں آپ کون ہیں؟ یہاں روز رات کو بیٹھا دیکھتا ہوں‘ دن میں آپ کہیں نظر نہیں آتی ہیں۔‘’‘ عمر اس کی جانب دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا۔ آسمان پر چمکتا چاند ان ساعتوں میں عین برگد پر تھا اور اس کی سحر طراز چاندنی میں برگدکی گھنی شاخوں سے چھنتی روشنی میں اس کی سفید رنگت و دلکش نقوش ایسے تھے جیسے بدلی میں چاند۔ وہ ازحد گھبرائی و بوکھلائی ہوئی تھی۔”آپ کون ہیں اپنا تعارف کروائیں نا۔“ وہ دوبارہ بولا
”میں …. میں کوئی نہیں ہوں۔“ وہ سخت سراسیمہ تھی۔
”آپ کوئی نہیں ہیں!…. اچھا اچھا یعنی آپ وہی ہیں جو مجھے شبہ تھا۔“ وہ یکدم سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”کیا…. کیا مطلب؟“ اس کا دل بری طرح دھڑکا کہ شاید وہ اسے پہچان گیا ہے کہ وہ ثاقب کی بیوی ہے۔ خوف و فکر سے اس کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ فرح بیگم کاحکم تھا وہ کسی کے سامنے نہ آئے کسی کو معلوم نہ ہو کہ ثاقب کی بیوہ یہیں رہ رہی ہے اور بھید کھلا بھی تو عمر کے سامنے۔ جس کے سامنے نہ آنے کی سخت ترین ہدایت تھی۔ اسے اپنی شامت قریب نظر آرہی تھی۔ ان کے ہاتھوں کی مار سے زیادہ زبان کی مارنا قابل برداشت تھی۔”مجھے پہلے دن سے یہی شک تھا کہ اس گھر میں کسی نیک دل پری کا سایہ ہے جو عمدہ کھانے بنا کر‘ اعلیٰ ڈسٹنگ کر کے نظر نہ آنے کے باوجود بھی سب کا خیال رکھ کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے تو آپ ہیں وہ نیک دل پری جو سب کو اپنا گرویدہ بناتی ہیں۔“
وہ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے مسکرا کر گویا ہوا اور اس کے کچھ حواس بہتر ہوئے کہ جو وہ سمجھی تھی وہ بات نہ تھی۔
”ایک نیک دل پری! آپ کا نام کیا ہے؟ مقام کہاں ہے؟“
”میں پری نہیں ہوں۔“ وہ جانے کے لئے آگے بڑھی۔
”پھر کون ہیں؟“ وہ اس کا راستہ روک کر بولا۔
”کوئی بھی نہیں‘ مجھے راستہ دیں۔“ اس کا لہجہ سخت تھا۔
”اوکے…. میں صبح آنٹی سے معلوم کروں گا۔“ وہ آگے سے ہٹتا ہوا بولا۔
”نہیں نہیں‘ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں‘آپ کسی کو بھی نہیں بتائیے گا کہ آپ نے مجھے دیکھا ہے۔“ وہ یک دم ہاتھ جوڑ کر بولی۔”کیوں؟ آپ کو دیکھنے پر کوئی دفعہ لگتی ہے؟“ وہ شاکڈتھا۔
”نہیں آپ وعدہ کریں کہ کسی کو نہیں بتائیں گے میرے بارے میں‘ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں‘ آئندہ کبھی یہاں نہیں بیٹھوں گی۔“ اس کی آواز میں بے بسی و لاچاری کی ایسی خوفزدگی تھی کہ وہ وعدہ کر بیٹھا۔ وہ رات اس نے بے خواب گزاری تھی۔
لرزتی‘ کانپتی آواز کی بے بسی وخوف اسے عجیب سے اضطراب و بے سکونی میں مبتلا کر گئی۔