دو دن بھوک ہڑتال کرنے اور خوب ہنگامہ کرنے کے بعد عبیر کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی۔لیکن اس شرط پر کہ جس یونیورسٹی میں سدرہ پڑھ رہی ہے عبیر بھی اسی میں پڑھے گی۔
" اسے کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔یونیورسٹی اس لیے جانا چاہتی تھی کہ حریم نے بھی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اس لئے یونیورسٹی کا کہہ رہی تھی کیونکہ ہم دونوں اسکول سے کالج تک ساتھ تھیں۔"
عبیر نے ناراضگی والے انداز میں کہا مگر اس کا لہجہ دھیما تھا۔
" سدرہ تمہارے ساتھ ہوگی تو مجھے تسلی ہوگی۔ میں تمہیں دکھ نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے حامی بھر لی ورنہ میں اس بات کے حق میں بالکل بھی نہیں تھا مگر میں تمہارے ساتھ ناانصافی نہیں کرنا چاہتا تھا میری بھی کچھ مجبوری تھی مگر تم نے ضد باندھ لی تو۔۔۔۔ "
احسان احمد نے کہا۔
" ابو میں حریم کے ساتھ پڑھنا چاہتی ہوں وہ میری دوست ہے وہ میرے ساتھ ہوگی۔وہ بچپن سے میرے ساتھ ہے میرے گھر آتی جاتی ہے۔میں کبھی اس کے گھر نہیں گئی لیکن پھر بھی وہ یہاں آتی ہے۔آپ بچپن سے اسے دیکھتے آرہے ہیں۔اس دنیا میں ایک ہی تو دوست ہے میری۔ اس سے بھی مجھے الگ کر دیں گے تو میرے پاس بچے گا کیا؟ پڑھنے کو میں کالج میں پڑھ سکتی تھی مگر مجھے حریم کے ساتھ پڑھنا تھا وہ میرے ساتھ ہوتی ہے تو مجھے حوصلہ ہوتا ہے۔ "
عبیر نے معصومیت سے کہا تو احسان احمد سوچ میں پڑ گئے۔
" صحیح تو کہہ رہی ہے ابا جب حریم اس کے ساتھ ہے تو پھر مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔"
علی نے کہا تو عبیر حیران ہو گی ایک بار پھر سے۔اسے سمجھ بھی آ گیا کہ علی کا کیا مقصد ہے۔
( تو میرے بھائی کو حریم پسند آگئی ہے اس لیے اتنی خوشامد کر رہا ہے میری۔)
عبیر نے دل میں کہا۔
" ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے کسی شکایت کا موقع نہ دینا۔ حریم کے علاوہ وہاں کسی سے بات نہ کرنا۔ سعدیہ آگے تم سمجھا دو اسے۔"
احسان احمد نے کہا اور آفس کے لیے روانہ ہوئے۔
عبیر خوش ہوگئی۔
" کیا ضرورت تھی ابا سے اتنی بحث کی؟ مان لیتی اُن کی بات آرام سے۔ "
سدرہ کو اچھا نہیں لگا۔۔ اُس سے عبیر کی خوشی شاید برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
سدرہ اندر ہی اندر عبیر سے حسد کا شکار تھی۔
اُسے یہی خوف تھا کہ کہیں عبیر کا رشتا کسی اچھی جگہ نہ ہو جائے۔
یہ سدرہ ہی تھی جس نے احسان احمد کے ذہن میں یہ سب باتیں ڈالی تھیں۔
بچپن سے جب وہ دیکھتی تھی کہ عبیر کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ہر جگہ اہمیت مل رہی ہے تو اس نے ہر جگہ سے عبیر کا آنا جانا بند کر دیا۔
سدرہ شروع سے ہی چالاک تھی اور عبیر کم عقل۔
ایک عزیز کی شادی میں جب سدرہ اور عبیر ساتھ گئیں تو سدرہ نے دیکھا کہ ساری اہمیت عبیر کو مل رہی ہے۔ عبیر کی عمر اُس وقت پندرہ سال تھی اور سدرہ کی سترہ۔
ایک تو عبیر گوری تھی اوپر سے تیار ہوئی تو اس کے حسن کو چار چاند لگ گئے۔
جب سے سدرہ نے دیکھا کہ عبیر سب کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے تو اسی دن شادی سے واپس آ کر اس نے اپنے باپ کے کان بھرنے شروع کر دیے۔
" ابا عبیر کو کسی شادی میں آئندہ مت بھیجئے گا" سدرہ نے کہا تو احسان احمد نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔
" وہ کیوں؟" احسان احمد نے پوچھا۔
" ابا سب لوگ وہاں عبیر کو دیکھ رہے تھے۔ اتنی پیاری جو لگ رہی تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اُسے کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ " سدرہ نے چالاکی سے الفاظ کا استعمال کیا۔
احسان احمد سوچ میں پڑ گئے۔
شکی مزاج اور سخت طبیعت تو وہ شروع سے ہی تھے۔ اب سدرہ کی یہ بعد اُن کی سختی کو مزید ہوا دینے کے لئے کافی تھی۔
اس دن کے بعد سے عبیر کی شادیوں میں جانے پر پابندی لگ گی تھی۔
اسی طرح سدرہ نے منفی باتیں کر کے عبیر کا شاپنگ پر جانا بھی بند کروا دیا تھا۔
چھت پر وہ صبح سویرے اور رات احسان احمد کے سونے کے بعد چلی جاتی تھی۔
ساری دنیا سے رابطہ کٹ جانے کے بعد اُس کا دل کھلی فضا میں سانس لینے کو کرتا تھا۔۔۔ اسی لئے وہ رات کو سوتے وقت اپنے کمرے کی کھڑکی کھول دیتی تھی۔ صد شکر کہ سدرہ نے اُس سے یہ کمرہ نہیں چھنوایا تھا۔
ایک وہ تھی اور ایک اس کا یہ کمرہ۔ جہاں کالج سے آنے کے بعد اُس کا سارا دن گزارتا تھا۔
باہر لاؤنج میں وہ کم ہی جاتی تھی۔ کیوں کے وہاں سدرہ علی اور احسان احمد بیٹھے ہوتے تھے شام سے رات تک۔
دوپہر کو وہ کالج سے واپسی پر سوتی رہتی تھی۔ شام کو سب ٹی وی لاؤنج میں جمع ہوتے۔ سعدیہ بیگم اپنے ڈرامے دیکھتی تھیں۔ سدرہ وہاں پر ہی ڈائننگ ٹیبل پر پڑھائی بھی کرتی ، موبائل بھی استعمال کرتی اور سب سے باتیں بھی۔ احسان احمد بھی اپنے آفس کا کام لاؤنج میں ہی کیا کرتے تھے۔۔ وہاں ہی اُن کا کھانا پینا ۔۔۔ چائے باتیں۔۔۔ یعنی کے رونق ہوتی۔
ایک عبیر تھی جو کمرے میں بند رہتی۔ حریم سے موبائل میں باتیں کرتی۔ یوٹیوب میں اپنے پسندیدہ ڈرامے بھی دیکھتی۔ پڑھائی بھی کرتی۔ اور ماہانہ رسالوں کا ایک ڈھیر بھی اُس کی اسٹڈی ٹیبل پر پڑا ہوتا۔
بس یہی مصروفیات تھیں اُس بیچاری کی۔ ایک بے حد مختصر سی دنیا تھی اُس کی۔
اُسے اندازہ بھی نہیں تھا کے اس قید اور پابندیوں کے پیچھے سدرہ کا ہاتھ تھا۔۔۔
وہ اردو اور انگریزی ادب پڑھتی۔۔۔ پڑھنے کے لئے اس کے پاس وقت ہی وقت تھا اس کی کوئی اور مصروفیات نہیں تھیں۔
ان کتابوں سے اسے بہت مدد مل جایا کرتی تھی۔ کافی سوالوں کے جواب مل جاتے تھے۔کئی مسئلے بھی اس کے حل ہوئے تھے۔
کتابوں سے بہترین ساتھی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ کتاب ایک ہی نشست میں بیٹھے بٹھاۓ ساری دنیا کی سیر کرانے کی طاقت رکھتی ہیں۔
وہ دنیا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔کتابوں کے ذریعے اسے دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ تو جو کتابیں پڑھتا ہے اسے ہلکا نہ لو۔۔۔
______________
خدا خدا کر کے وہ دن بھی آگیا جب اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ حریم نے تو اس سے پہلے داخلہ لے لیا تھا۔لیکن اس کا داخلہ تھوڑا تاخیر سے ہوا تھا۔
وہ گھبرائی ہوئی تھی۔اس نے حریم کا بازو زور سے پکڑا ہوا تھا۔
" گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نہ تمہارے ساتھ۔"
حریم نے کہا۔
" میں کبھی اتنا گھر سے باہر نکلی نہیں ہوں نا۔کالج میں تو لڑکیاں ہوتی تھی لیکن یہاں لڑکے بھی ہیں اس وجہ سے مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔"
عبیر کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔
" اپنے اندر کانفیڈنس پیدا کرو لڑکی۔ میں اپنی دوست کو زندگی میں آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے یہی خوف تھا کہ تم ہوم برڈ ہو کر رہ جاؤ گی۔ نہ میرا اسکول میں تمہارے بغیر گزارہ ہوتا تھا اور نہ کالج میں۔۔۔تو سوچا یونیورسٹی میں میں تمہارے بغیر کیسے آتی؟ "
حریم نے محبّت سے کہا اور اس کا حوصلہ بڑھایا۔
اسے وہ سب نصیحتیں یاد آ رہیں تھیں جو سعدیہ بیگم نے اسے کیں تھیں۔
( کسی لڑکے سے بات مت کرنا۔کسی سے فری مت ہونا بلاضرورت۔بہت مشکل سے تمہارا باپ مانا ہے۔تھوڑی سی بھی گڑبڑ ہوئی نہ تو سارا الزام مجھ پر آ جائے گا۔مجھے تمہارا دکھ ہو رہا تھا اس لیے میں نے تمہارے باپ سے کہا۔اگر تم سے ذرا سی بھی غلط نہیں ہوئی تو انجام تم خود جانتی ہوں پھر سے وہی قید تمہارا مقدر ہوگی۔)
سعدیہ بیگم کی باتیں اسے ازبر ہو چکی تھیں۔
وہ یہاں کسی لڑکے سے چکر چلانے کے لیے نہیں آئی تھی۔وہ یہاں اپنی زندگی جینے آئی تھی۔وہ آزادی چاہتی تھی کھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی تھی۔اور حریم کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ حریم کی سنگت اسے بہت مسرور کرتی تھی۔
" واو۔۔۔ وہ دیکھو برہان احمد۔" حریم نے پرجوش ہو کر کہا تو اس نے سوالیہ نظروں سے حریم کی طرف دیکھا۔
" برہان احمد اس ملک کے نامور ماہرِ نفسیات ہیں۔وہ ضرور یہاں لیکچردینے آئے ہیں میں نے پہلے بھی ایک بار انہیں یہاں دیکھا تھا۔"
حریم نے کہا تو اس نے مڑ کر برہان احمد کو دیکھا۔
" ہاں میں نے انہیں ایک بار کسی مارننگ شو میں دیکھا تھا۔" عبیر کو یاد آگیا۔
" جادو ہے اس شخص کی باتوں میں۔" حریم نے تعریف کی۔
" میں نے پورا انٹرویو نہیں دیکھا بس ایک جھلک دیکھی تھی تمہیں تو پتہ ہے کہ میں ٹی وی لاؤنج میں نہیں بیٹھتی ہوں زیادہ۔بس وہاں سے گزر رہی تھی تو نظر پڑ گئی۔"
عبیر نے کہا۔
" چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا۔" حریم نے کہا تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
_______________
سحر انگیز شخصیت کا مالک وہ شخص جب گلاس میں داخل ہوا تو سب سے پہلی نظر اس کی عبیر پر پڑی اور پلٹنا بھول گئی۔
لیکچر کے دوران بھی اس کی نظریں بار بار عبیر کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
عبیر نے تھوڑی ہی دیر میں محسوس کرلیا تھا کہ وہ شخص اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
" یہ بندہ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہا ہے؟ مجھے اس کی نظروں سے الجھن ہو رہی ہے۔۔۔ کیا یہ سب کو ایسے ہی دیکھتا ہے یاں صرف مجھے دیکھ رہا ہے؟"
عبیر نے حریم کے کان میں سرگوشی کی۔
" تم نظر انداز کرو بس۔ " حریم بولی۔
" ایکسکیوزمی مس۔ "
جب اُس نے حریم اور عبیر کو سرگوشیاں کرتے دیکھا تو بولا۔
وہ دونوں چونک گئیں۔
" یہ باتیں آپ کلاس ختم ہونے کے بعد بھی کر سکتی ہیں فی الحال لیکچر پر توجہ دیں تو آپ کے فائدے میں رہے گی یہ بات۔"
اس نے کہا۔ ۔۔۔
وہ دونوں پھر سے اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
اس کا نام شہیر شیرازی تھا۔ اور وہ یہاں نیا لیکچرار مقرر ہوا تھا۔ اس کی عمر اٹھائیس سال تھی۔
لیکچر کے دوران عبیر شہیر شیرازی کی نظریں خود پر مسلسل محسوس کر رہی تھی۔
وہ انتہائی گھبراہٹ کا شکار تھی کیونکہ وہ پہلے گرلز کالج میں پڑھتی تھی جہاں پر اساتذہ بھی خواتین ہوتی تھیں۔
لیکن آج اتنے سالوں کی قید کے بعد اچانک سے اتنی زیادہ آزادی مل جانا۔۔۔ یہ تبدیلی اس کا ذہن قبول نہیں کر پا رہا تھا۔
صد شکر کے اس کے ساتھ حریم تھی ورنہ تو پہلے دن ہی ہو بے ہوش ہوجاتی گبراہٹ کے مارے۔
_____________
وہ گھر واپس آئی تو سعدیہ بیگ نے تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔
" کسی لڑکے وغیرہ سے بات تو نہیں کی نا تم نے؟"
سعدیہ بیگم نے پہلا سوال داغا تو وہ سر پکڑ کر رہ گئی۔
" امی خدا کا واسطہ ہے میری جان چھوڑ دے میں انسان ہوں مجھے انسان رہنے دیں۔"
وہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
لباس تبدیل کیا اور سونے کے لئے لیٹی اسے شدت سے نیند آ رہی تھی دوپہر کے تین بج رہے تھے۔
" ایسے کیسے سونے کی تیاری کر رہی ہو پہلے کھانا تو کھا لو" سعدیہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا اور کھانا اس کے سامنے رکھ دیا۔
وہ ایک بار پھر سے آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی اور کھانا شروع کیا اور جلدی سے کھا گئی اور پھر سے سونے کے لئے لیٹ گئی۔
دو گھنٹے سونے کے بعد شام پانچ بجے اس کی آنکھ کھلی۔
تھوڑا بہت جو یونیورسٹی میں پڑھایا گیا تھا وہ سب کتابیں کھول کر دوبارہ سے پڑھنے لگی۔
وہ حریم کے ساتھ یونیورسٹی گئی تھی۔اور واپس بھی اسی کی گاڑی میں آئی۔حریم کے پاس اپنی گاڑی تھی جو کہ حال ہی میں اس کے والد نے اسے لے کے دی تھی یونیورسٹی آنے جانے کے لیے۔ چھوٹی سی گاڑی تھی لیکن حریم کے لئے کافی تھی۔
اس بات سے اسے بہت آسانی ہوئی تھی ورنہ یہ ذمہ داری علی کے سر تھوپ دی جاتی اور پھر اسے پریشانی ہوتی۔
______________
وہ گھر واپس آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔
" صاحب کھانا لگا دوں؟"
اس کے ملازم رشید نے کہا۔
" نہیں میں کھانا کھا کر آیا ہوں سونا چاہتا ہوں۔"
شہیر شیرازی کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
سونے کے لئے لیٹ گیا مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے وہ چہرہ بار بار آ رہا تھا جسے اس نے آج یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔
تقریبا ایک مہینہ ہو گیا تھا اسے یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے لیکن اس نے یہ چہرہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
لیکن آج نجانے وہ کہاں سے اچانک آگئی تھی۔
یقیناً وہ لیٹ کمر ( late comer) تھی۔
اور کافی نروس بھی لگ رہی تھی۔
حریم کو ایک مہینے سے کلاس میں دیکھ رہا تھا۔
لیکن آج ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ دونوں کی بہت دیرینہ دوستی ہے۔
اس لڑکی کے متعلق سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔
شام کو نیند سے جاگا تو وہی چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔
دن بھر میں اس کی بہت ساری مصروفیات ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ان تمام مصروفیات کے دوران بھی بار بار اس لڑکی کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔
یونیورسٹی میں بے شمار حسین لڑکیاں تھیں مگر وہ کسی سے آج تک متاثر نہیں ہوا تھا۔
لیکن اس لڑکی میں نہ جانے کیا بات ہے اسے نظر آئی جو بھلا ہی نہیں پا رہا تھا۔
اسے شدت سے صبح کا انتظار تھا تاکہ وہ اُس چہرے کو دوبارہ دیکھ سکے۔
وہ ایک عجیب سے احساس سے گزر رہا تھا جیسے کوئی معنی نہیں دے پا رہا تھا۔
اپنی خاموش طبیعت اور سوبر شخصیت کے باعث وہ مقابل کو متاثر کرنے کی کی صلاحیت رکھتا تھا۔
______________
دوسری طرف عبیر بھی یونیورسٹی جانے کے لیے بے چین تھی۔چھٹی کے وقت تک اس کی گھبراہٹ میں کافی کمی آ گئی تھی۔ اتنے سال جیسے قید میں گزارنے کے بعد وہ ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئی تھی اور اسے یہ سب مزہ دے رہا تھا۔
لیکن اسے اپنے حدود کا بہت اچھے طریقے سے پتہ تھا۔وہ صرف پڑھنا چاہتی تھی آگے بڑھنا چاہتی تھی اور اپنی آزادی سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔
صبح سویرے اُٹھ کر ناشتے کی میز پر آئی۔
اس نے ابھی ناشتہ ختم بھی نہیں کیا تھا کہ حریم کی گاڑی کے ہارن پر ہارن سنائی دے رہے تھے۔
" اس لڑکی کو کیا جلدی ہے آخر؟" احسان احمد نے بیزاری سے کہا۔
" ہاں عبیر اسے اندر بلاؤ بھی تو کافی وقت ہے۔" علی فورا بولا۔
" سب سمجھ رہی ہو میں تمہارا مطلب اور مقصد۔" عبیر نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
" یہ کیا پوشیدہ باتیں ہو رہی ہیں؟" احسان احمد نے ٹوکا۔
" کچھ نہیں بابا میں تو بس اسے کہہ رہا تھا کہ اپنی سہیلی کو بلا لو وہ بھی ناشتہ کر لے گی۔"
علی نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
" نہیں مجھے بس جانا ہے وہ اندر نہیں آئے گی جلدی میں ہے۔" عبیر کہتی ہوئی اٹھی اور اپنا بیگ اٹھایا اور جلدی میں وہاں سے چلی گئی۔
سدرہ پریشان تھی۔
اتنے سالوں سے گھر میں اور خاندان میں عبیر کو کوئی اہمیت نہیں مل رہی تھی تو اس کا دل مطمئن تھا۔
لیکن اب وہ یہ سوچ کر پریشان تھی کہ عبیر ایک بار پھر سے سب کی نظروں میں آ جائے گی۔
وہ ذہن میں کوئی تدبیر سوچ رہی تھی لیکن فی الحال اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ بس یہ چاہتی تھی کہ کسی طرح عبیر کا یونیورسٹی جانا بند ہو جائے۔
_______________
شہیر شیرازی نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے پہلی نظر ہی عبیر پر ڈالی۔ عبیر کو دیکھ کر اسے عجیب قسم کی مسرت ہوئی۔
لیکچر کے دوران اس کی نظریں ایک بار پھر سے بہک کر عبیر کے چہرے پر جا کر رک رہی تھیں بار بار۔
وہ سمجھ رہا تھا کہ سب اسے نوٹ کریں گے اس لئے وہ خود کو باز رکھنے کی مکمل کوشش کر رہا تھا لیکن بے سود۔۔
اس لڑکی میں اسے سب سے خاص بات جو لگی تھی وہ اس کی معصومیت تھی۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ زمانے کی ہوا اسے لگی ہی نہیں ہے۔
وہ دنیا جہان سے انجان ہے۔
اور اسی وجہ سے اسے اس لڑکی میں کشش محسوس ہو رہی تھی۔
اچانک سے عبیر کا موبائل میں تھرتھراہٹ ہوئی۔
اس نے نظر بچا کر پیغام کھولا تو سدرہ کا میسج تھا۔
" اپنی سہیلی سے کہو کہ اگر تمہیں لینے آتی ہے تو آرام سے اس طرح زور سے ہارن بجانے کی ضرورت نہیں ہے یہاں پر کوئی اس کا نوکر نہیں بیٹھا ہوا ہے۔"
یہ سدرہ کا پیغام تھا جو اسے اپنے موبایل پر موصول ہوا تھا۔
پیغام پڑھ کر اسے شدید غصہ آیا۔
وہ جوابی پیغام ٹائپ کر رہی تھی کہ اچانک سے شہیر شیرازی نے اسے پکارا۔
" ایکسکیوزمی مس۔۔ " شہیر شیرازی کی آواز پر اس نے چونک کر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
" جی میں آپ سے بات کر رہا ہوں۔۔۔کیا نام ہے آپ کا؟" شہیر شیرازی نے کہا اسے بہانہ چاہیے تھا اس لڑکی کا نام معلوم کرنے کے لئے اور مل گیا تھا بہانہ
" سر۔۔۔ میرا نام عبیر ہے۔" اس نے گھبراہٹ سے کہا۔
" ہممم عبیر۔۔۔ نائس نیم ۔۔۔ لیکن دیکھیں مس عبیر۔۔۔ یہ کلاس روم ہے پر اس وقت لیکچر چل رہا ہے ۔۔۔ جس کا سننا آپ کے لیے بہت ضروری ہے۔ تو برائے مہربانی موبائل چھوڑ کر لیکچر غور سے سنیں۔ " شہیر شیرازی نے کہا تو بے حد شرمندہ ہوئی اور پھر سے موبائل رکھ کر اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔