عبیر کو گھر چھوڑ کر اگلے روز سرور اپنے ایک دوست کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں چلا گیا وہی سے وہ گاؤں جانے والا تھا ۔۔
عبیر دن بھر کام کرتے اب تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئی اور کب آنکھ لگی کچھ پتا نا چلا پھر اسکی آنکھ مغرب کی اذان پر کھلی تھی جلدی سے وضو بنا کر نماز ادا کرنے کے بعد وہ رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی سرور تو آج گاؤں گیا تھا تو کل یا پرسوں ہی اس کی واپسی ہونی تھی ۔۔
کھانا بناتے ہوئے وہ مسلسل سوچوں کے منجھدار میں پھنسی ہوئی تھی ۔۔ جب اس پر پابندی آئی تب اسے اپنی سانولی بہن کی طرح ہونے کی خواہش جاگتی تھی کیوں کہ رنگ کی وجہ سے ہی تو جو بھی آج تک ہوا تھا اسکی سب سے بڑی وجہ خوبصورتی تھی اور اسکے بابا سہی ہی ڈرتے تھے ۔۔۔
لیکن پھر اللّه نے اسے بتا دیا رنگ و صورت میں کچھ بھی نہیں رکھا ہوا بس سب کچھ نصیب کی بات ہوتی ہے ۔۔۔ سب کو امتحان پاس کرنا ہوتا ہے جو اس پر بھی آیا تھا اسکے قدم لڑکھڑائے ضرور تھے لیکن وہ کامیاب ہو گئی تھی ۔۔۔ اب سدرہ کی بھی شادی ہو چکی تھی وہ اپنے گھر خوش تھی اسکا شوہر گورا تھا نا کبھی اس نے اپنی بیوی کو کالا سمجھا نا ہی جتایا ۔۔۔ اس بات سے عبیر بھی بہت خوش تھی ۔۔۔
( سدرہ تم بلاوجہ ہی ساری زندگی مجھ سے حسد میں مبتلا رہی ہو۔میرے پاس ایسا کچھ بھی نہ تھا کہ تم مجھ سے حسد کرتی سوائے رنگ کے۔ہم دونوں کے نین نقش ایک ہی جیسے تھے۔اگر ہمارا رنگ ایک جیسا ہوتا تو سب ہمیں جڑواں سمجھتے۔۔۔ لیکن قصور تمہارا بھی نہیں ہے قصور اس معاشرے کا ہے۔۔۔ اس معاشرے میں رہنے والے انسانوں کا ہے جو سامنے رنگ پر گوری رنگت کو فوقیت دے کر سامنے رنگ والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور گورے رنگ والوں کو احساس ہے غرور میں۔۔۔ معاشرے کی یہ لوگ ایک گورے انسان کی تعریف کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ان کے سامنے ایک سانولا انسان بھی کھڑا ہے۔ کوئی بری بات تو نہیں کہ اگر دونوں کی تعریف کردی جائے۔معاشرے کا یہ رویہ ہیں سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے کئی انسانوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہے اور ان لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ ان کی چھوٹی سی بات کسی کی زندگی پر کتنا اثر رکھ سکتی ہے۔)
ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئی سوچوں میں مستغرق تھی۔
لیکن وہ اب خوش تھی اسے محبت کرنے والا شوہر مل چکا تھا اور وہ خود بھی اس پر جان دیتی تھی ۔۔ یہ سب سوچتے اسکے چہرے پر ایک شرمگیں مسکراہٹ در آئی تھی ۔۔۔ باہر کچھ کھٹکے کی آواز پر وہ چونکی تھی ۔۔۔کھانا تو بن چکا تھا وہ جلدی سے باہر آئی تھی اور اپنے سامنے موجود وجود کو دیکھتے اسکے ہاتھ سے کھانے کی پلیٹ چھوٹ کر گری تھی ۔۔۔۔
__________________
سرور اپنا ضروری کام نپٹانے کے بعد جب فارغ ہو کر گاؤں کے لئے نکلا تو اگے بارش ہونے کی وجہ سے سارے راستے بلاک تھے ۔۔۔ مجبورا اسے واپس آنا پڑا جب راستے میں اسے ایک گجرے والا نظر آیا تھا جو شائد بارش کی وجہ سے اپنا سامان بند کرتے گھر جانے کی تیاری میں تھا ۔۔ گجرے دیکھتے ایک خوبصورت چہرہ اسکی آنکھوں میں آسمایا تھا اس نے گجروں کی قیمت ادا کرتے وہ خرید لئے تھے یقینا واپسی کے ساتھ ان گجروں کو دیکھتے وہ خوشی سے جھومنے والی تھی سرور نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی تھی ۔۔۔
___________________
شہیر نے عبیر کو بہت ڈھونڈا جب اسکا کہی بھی پتا نا چل سکا تو اسکے والدین کے جھگڑے میں جو جیت گیا اسکی پسند سے اسکی شادی کر دی گئی ۔۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا وہ بظاھر تو نارمل تھا لیکن عبیر کی خواہش اب بھی اسکے دل میں ہی کہی موجود تھی عالیہ عام بیویوں کی طرح اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی اور شادی کے چند ہی مہینوں میں شہیر کے گھر بیٹے کی صورت شاہ زین آیا تھا اسکےپیدا ہونے کے بعد بیوی سے محبت ہونا تو دور اسے اپنے بیٹے میں بھی عبیر کا ہی عکس دیکھتا تھا ۔۔ کل وہ کسی کام کے سلسلے میں ریسٹورنٹ آیا تھا اسکا دل تو بلکل نہیں تھا لیکن یہ میٹنگ بھی ضروری جو ایک خوبصورت سی لڑکی کے ساتھ تھی کیوں کہ اپنے بابا کے بعد وہ اب سکول کی پرنسپل تھی ۔۔ شہیر کو ذرا دلچسپی نہیں تھی اس لئے وہ یہاں سے وہاں نظریں دوڑا کر اپنا وقت گزار رہا تھا جب ایک ٹیبل پر نظر تھم سی گئی تھی ۔۔
ہاں وہی تھی عبیر احسان۔۔۔ وہی لڑکی جسے بھلا کر بھی بھلا نہ پایا تھا۔ وہ کسی کے ساتھ بیٹھے بہت خوش نظر آ رہی تھی وہ کوئی اور نہیں نہیں بلکہ وہی اس کا اسٹوڈنٹ سرور سجاد تھا جس نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی اور اس کا گلا دبایا تھا۔
ان دو سالوں میں اس نے عبیر کو کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تھا یہ وہی جانتا تھا۔عبیر کی شادی نہ ہو پائی تھی اور وجہ بھی اس کے والدین تھے اور یہ بات اُسے معلوم تھی لیکن اس کے بعد عبیر کہاں چلی گئی۔ وہ نہیں جان پایا۔
________________
عبیر نے بھاگ کر کمرے میں جانے کی کوشش کی تھی جب شہیر نے ایک ہی جست میں اسے بازو سے پکڑ لیا تھا ۔۔
کہا بھاگ رہی ہو عبیر ڈارلنگ ؟اتنی مشکل سے تو ہاتھ آئی ہو اب یہ دوری برداشت نہیں ہوگی مجھ سے ۔۔بہت تڑپا لیا تم نے بس اب اور نہیں ۔۔ اب میں تمہیں حاصل کر کے ہی رہوں گا ۔۔
چھوڑو مجھے تمہیں خدا کا واسطہ ہے شہیر میں شادی شدہ ہوں ۔۔۔
تو کیا ہوا اگر تم شادی شدہ ہو تو میں کونسا کنوارہ ہوں میں بھی ایک بیٹے کا باپ ہوں لیکن مجھے وہ اپنی بیوی نہیں پسند اگر تم کہو تو ابھی اسے طلاق دے کر تم سے شادی کر لو گا بس تم اپنے شوہر سے طلاق لے لو پھر ہم ایک ہو جائے گے ۔۔پھر کوئی ہمارے بیچ نہیں آئیگا ۔۔۔
تم ۔۔۔۔۔۔
عبیر نے اپنا بازو چھڑانا چاہا تو شہیر نے اس اپنے مضبوط حصار میں جکڑ لیا۔
"گھٹیا انسان تمہیں ابھی بھی چین نہیں آیا میری زندگی برباد کرکے؟ تمہاری میں جنسی میری زندگی کے قیمتی چار سال ضائع ہو گئے۔تمہاری وجہ سے میری شادی نہ ہو پائی۔تمہاری وجہ سے میں گھر والوں کی نظروں میں گر گئی۔تمہاری وجہ سے میں برباد ہوتے ہوتے بچ گئی اگر سرور مجھے سہارا نہ دیتا تو۔۔۔۔"
عبیر سارے لحاظ بول کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی وہ بڑا افسوس نہیں کئی سالوں سے اپنے اندر جمع کر رکھی تھی آج اسے موقع مل گیا۔
" اوہ ۔۔ اچھا ۔۔۔ وہ گنڈا موالی سرور۔۔۔ یہ تو تم نے مجھے چھوڑ کر اس کا انتخاب کر لیا۔میں نے تمہیں کتنے فون کال کی ہے کتنے پیغامات بھیجے تمہاری دوست کے ساتھ پیغام بھیجے تمہارے گھر تک آیا۔۔۔ ساری ساری رات تمہارے گھر کے باہر کھڑا رہتا تھا تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے وہ تو میں نے کیسے گزارا میں نہیں جانتا ہوں۔ لیکن افسوس ہے کہ تم میری محبت کو سمجھ نہیں پائی۔اور ایک گنڈے موالی کو مجھ پر فوقیت دی تم نے۔کیا اب تو خوش ہو ایک چھوٹے سے گھر میں ایک عام سے آدمی کے ساتھ؟"
شہیر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
" عام آدمی؟؟؟ تم اسے عام آدمی کہہ رہے ہو؟ ۔۔۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے شاید کہ وہ کتنا "خاص" ہے۔ ۔۔۔ تم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کس قدر اہم ہے میرے لیے۔۔۔ اس کی ظاہری حلیہ کو دیکھ کر تو اسے ڈھونڈ مال کہتے ہو ۔۔۔ اور تمہاری ظاہری حلیے کو دیکھ کر میں بہک گئی تھی۔۔۔ مگر اب مجھے سمجھ آ رہا ہے کہ اس شاندار شخصیت کے اندر کتنی بری روح تھی۔۔۔ جس نے مجھ پر تو بدکردار ٹھپا لگوا دیا تھا لیکن اپنے کردار میں جھانکنے کی ذرا سی بھی زحمت نہیں کی تھی۔"
عبیر نے غصے سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور خود کو چھڑانے لگی مگر بے سود۔۔۔
" اچھا اب وہ تمہارے لیے خاص ہو گیا؟"
شہیر بولا۔
" ہاں وہ خاص ہے بہت خاص ہے جس نے مجھے عزت دی۔۔۔۔ جس نے مجھ سے "نکاح" کیا اور مجھے "بیوی" کا مقام دیا۔۔۔ وہ نکاح جس کا جھانسہ دے کر تم نے مجھے ٹریپ کیا تھا۔ میرے لئے وہ شخص دنیا میں سب سے خاص ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی۔۔۔ لیکن ذرا سے بھنک بھی پڑ گئی کہ اس کے پیچھے تم میرے گھر میں آئے وہ تو میں اسے ہمیشہ کے لئے کھو دو گی۔اس لیے بہتر ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ گے۔۔۔۔ یا پھر سرور کے ہاتھوں۔۔"
عبیر نے کہا۔
" اس کا مطلب وہ ہمارے ماضی کے بارے میں جانتا ہے۔تم نے اسے سب بتا دیا۔" شہیر نے کہا۔
" حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسے کچھ نہیں بتایا وہ سب کچھ پہلے سے جانتا تھا اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نے مجھے اپنایا صرف اپنا ہی نہیں بلکہ "عزت" دی۔۔۔ وہ عزت جو تم مجھے نہ دے سکے کبھی۔"
عبیر نے کہا۔
کھلے دروازے سرور اندر داخل ہوا تو اس کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی اور سر پر جیسے آسمان گر گیا تھا سامنے سامنے کا منظر دیکھ کر۔۔۔ وہ اپنی بیوی کو کسی اور کی باہوں میں دیکھ رہا تھا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا پرانا عاشق تھا۔
" تو تم نے اسے یہ بھی بتایا ہوگا کہ تم میرے گھر میں اکیلی میرے ساتھ گئیں تھیں اور ہم دونوں کے بیچ اس وقت کیا ہوا تھا یقیناً نہیں بتایا ہوگا۔۔ اگر تمہیں یاد نہیں تو میں تمہیں یاد کروا دیتا ہوں کہ جذبات کی رو میں بہہ کر میں نے تمہیں چھوا تھا اور اور تم نے مجھے ایسا کرنے دیا اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے۔۔۔ ہمارے مابین صرف محبت کی باتیں ہی نہیں ہوئیں تھیں اور بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ سب بتا دو اپنے شوہر کو اور چھوڑ دو اُسے۔۔۔ ہم پھر سے ایک ۔۔۔۔
شہیر کی بات مکمل نہیں ہو پائی تھی۔ ایک مضبوط ہاتھ نے دونوں کو الگ کیا اور شہیر کو مکا رسید کرتے ہوئے اسے دور پھینکا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا دور جا گرا۔۔۔
سرور نے لہو رنگ آنکھیوں سے مڑ کر عبیر کو بے اعتباری سے دیکھا تھا۔
عبیر جانتی تھی اب کچھ بھی کہنا بیکار تھا۔ اس کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا تھا اس کے بعد سرور اس کی کسی بات پر یقین نہیں کرنے والا تھا۔۔۔
یہ سچ تھا کہ وہ ایک عظیم انسان تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ انسان تھا فرشتہ نہیں۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا عبیر کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور بے یقینی سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
عبیر خوفزدہ سی اسے دیکھ رہی تھی کہ وہ کیا بولے گا۔۔۔
اور آگے جو سرور بولا تو اس کے بعد مزید کوئی ہمت عبیر کے اندر نہیں رہی تھی۔
وہ وہی کچھ بولا جو کبھی نہیں بولنا چاہتا تھا۔۔۔عبیر نے وہ سن لیا چوک کبھی بھی سرور کے منہ سے سننا نہیں چاہتی تھی لیکن اس کے اندر یہ خوف ہمیشہ سے تھا کہ وہ یہ تین الفاظ اس کی وجہ سے ضرور سنیں گی ۔۔۔ بار خواب میں بھی دیکھ چکی تھی اور آج سرور نے تین الفاظ بول دیے تھے۔۔۔
وہی تین الفاظ جس کے بولنے سے ساتوں آسمان لرز جاتے تھے۔۔۔ تین الفاظ سے شروع ہونے والا یہ رشتہ تین الفاظ پر آج ختم ہو گیا تھا۔۔۔
عبیر احسان ۔۔۔ میں سرور سجاد ۔۔۔ اپنے پورے ہوش وحواس میں ۔۔ تمہیں طلاق ۔۔
اس سے آگے عبیر سن نہیں پائی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ اگلے ہی پل زمین بوس ہو کر گر پڑی۔
سرور بے یقینی سے کچھ پل اسے دیکھتا رہا بادل جو آسمان میں چھائے تھے وہ ہولے سے برسنے لگے۔
ہلکی سی بوندا باندی زمین پر گری ہوئی عبیر کا وجود بھگونے لگی تھی اور کھڑے سرور کو بھی۔۔۔
سرور کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا اسے اتنا بھی ہوش نہیں رہا کہ شہیر وہاں اس کے پیچھے کھڑا ہے۔
ان دو سالوں میں جتنی محبت وہ عبیر سے کر بیٹھا تھا اس کا کوئی حساب نہیں تھا اور آج ایک پل میں سب کچھ ختم ہو گیا تھا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے سب ختم کیا تھا اور اب اُسے نہ کچھ سنائی دے رہا تھا اور نہ کچھ دکھائی دے رہا تھا۔۔۔
وہ کسی مجسمے کی طرح تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔
وہ سڑک پر چلتا جا رہا تھا بارش شروع تھی اور اب تیز ہوتی جا رہی تھی وہ بارش میں بھیگتا جا رہا تھا۔۔
اس ایک ایک محبت بھرے لمحات کو یاد کرتا ہوا جو اس نے عبیر کے ساتھ گزارے تھے۔
اس کی ساری محبت بھری باتیں اس کے ذہن میں گونجنے لگی تھی کیا وہ سب جھوٹ تھا؟؟
کیا اس نے شہر آنے کی ضد صرف اس لئے کی تھی تاکہ وہ شہیر شیرازی سے دوبارہ مل سکے؟؟؟
ہر ہفتے وہ دو دن کے لیے گاؤں جاتا تھا تو کیا پیچھے اسی طرح وہ شہیر کو بلا لیتی تھی؟
سرور کے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن جو منظر اس نے دیکھا تھا اس کو بھی نہیں جھٹلا پا رہا تھا۔
__________
شہیر کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا جو سرور نے بولا۔
یہ کام اتنا آسان ہو جائے گا اسے اندازہ نہیں تھا۔
پر حیرت کی بات یہ تھی کہ سرور نے اسے مارا پیٹا نہیں تھا کچھ بھی نہیں کہا تھا اور نکل گیا باہر۔۔۔ وہ سمجھ گیا کہ سرور شدید صدمے کے باعث گھر چھوڑ کر گیا ہے اور تھوڑی دیر میں پھر واپس آ جائے گا جب اس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے اس سے پہلے اسے یہاں سے نکلنا تھا وہ بھی عبیر کے ساتھ۔
اس نے عبیر کی بے سود وجود کو اٹھایا اور گاڑی میں ڈالا۔
گھر میں تو اس کی بیوی رہتی تھی اس نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جس کا فلیٹ اس وقت خالی تھا۔
کوئی بہانہ کرکے اس نے دوست سے فلیٹ کی چابی لی اور عبیر کو وہاں لے آیا۔
جب کافی دیر بعد بھی وہ ہوش میں نہ آئیں تو مجبوراً اسے فلیٹ میں ہیں ڈاکٹر کو لانا پڑا۔
" ویسے تو یہ ٹھیک ہے مگر ان کا مس کیرج ہوگیا ہے۔۔۔ کیا یہ آپ کی وائف ہیں؟"
ڈاکٹر نے کہا۔
" جی یہ میری بیوی ہے۔ " شہیر نے کہا۔
" بہت افسوس ہوا مجھے آپ کے بچے کا ۔۔۔ بہت ارلی پریگنینسی تھی شاید۔۔۔ انہیں ہسپتال لے جانا پڑیگا۔"
ڈاکٹر سعدیہ نے کہا ۔۔۔ مجبور اسی ڈاکٹر سعدیہ کے کلینک میں لے گیا۔
عبیر کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو کلینک میں پایا۔
"یہ دوا کھا کر سو جاؤ کل صبح ہی میں تم سے نکاح کروں گا ۔۔۔۔ بچے کے ساتھ عدت بھی ختم ہو ہی چکی ہے اور تم بھی اب ایسے شخص کے لئے تو سوگ مناؤ گی نہیں جس نے تمہیں صفائی میں بولنے کا ایک موقع نا دیا اور طلاق دے کر چلتا کیا ۔۔۔۔ آج رات سوچ لو اور اپنا ذہن بنا لو نکاح کے لئے ۔۔۔ کیوں کہ میں اب بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں ۔۔"
وہ کہتے ہی چلا گیا تھا جب کہ عبیر خالی ذہن کے ساتھ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جن میں اب کچھ بھی نہیں تھا وہ تہی دامن رہ گئی تھی ماں باپ نے تعلق ختم کر دیا اب اگر شوہر واحد سہارا تھا تو اسنے بھی رات کے اندھیرے میں کسی اچھوت کی طرح اسے خود سے دور کر دیا تھا ۔۔۔ اور وہ کہا آگئی تھی ؟ واپس وہیں پر جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی ۔۔۔
اگلے روز واقعی اس نے اپنے کہے پر عبیر سے نکاح کر لیا تھا ۔۔۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ابھی نکاح کے لیے نہیں مانے گی اسے بہت محنت کرنی پڑے گی منانے کے لیے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا وہ کسی روبوٹ کی صورت بیٹھی رہی اور چپ چاپ کیسے اس نے نکاح قبول بھی کرلیا تھا اور شہیر حیران تھا اس کے اس رویے پر۔
پھر وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ یہی چاہتی تھی کہ اس کی شادی شہیر سے ہو جائے اور سرور ایک بوجھ کی مانند تھا جسے اس نے اتار پھینک دیا تھا۔
" مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہمارا نکاح ہوچکا ہے۔"
اس کے قریب بیٹھتے ہوئے شہیر نے کہا۔
" مجھے بھی یقین نہیں آرہا۔" وہ ٹرانس میں بول رہی تھی۔
" مجھے لگا تم نہیں مانوں گی نکاح کے لیے۔"
شہیر نے کہا۔
" میرے پاس کوئی اور راستہ بھی تو نہیں تھا۔۔۔ سرور سے رشتہ ختم ہوگیا اور گھر والوں نے دو سال پہلے ہی رشتہ ختم کر دیا تھا۔۔۔ جاتی بھی تو کہاں جاتی۔۔۔ تمہیں میرا نصیب تھے اور میں نے اسے قبول کر لیا۔۔۔ "
چھت کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولتی جا رہی تھی ابھی بھی اس کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔وہ لیٹی ہوئی تھی۔ شہیر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا جا رہا تھا۔
وہ جان چکی تھی کہ وہ ماں بننے والی ہے اور یہ سوچے بیٹھی تھی کہ جب سرور گاؤں سے واپس آئے گا تو اسے سرپرائز دے گی۔ اگر قسمت نے تو اسے ہی سرپرائز دے دیا تھا۔
ڈیڑھ مہینہ نہ جانے کیسے اس نے شہیر کی سنگت میں گزارا تھا۔۔۔ پہلے اسے سمجھ نہیں تھی مگر اب سے سمجھ آ گئی تھی۔۔۔ لوگوں کی ۔۔۔ دنیا کی ۔۔۔ ہر بات کی ۔۔
وہ اُس کی آزادی کا دن تھا۔۔۔ اُس نے سوچ رکھا تھا ۔۔۔ وہ جو کرنے جا رہی تھی اس پر اسے کسی قسم کا پچھتاوا نہیں تھا۔۔۔ پچھلے دو ماہ سے وہ اس دن کا انتظار کر رہی تھی بلکہ اس موقع کا۔۔۔ تھوڑی سی ہمت کرنی تھی جو وہ نہیں جتا پا رہی تھی مگر آج اس میں ہمت آ گئی تھی۔
اور وہ اس کے مقابل کھڑا تھا اس کے ہاتھوں میں محبت سے گجرے پہنا رہا تھا۔
مسکرا کر اس کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔اس کی نظروں میں محبت صاف نظر آرہی تھی۔لیکن عبیر کی نظروں میں کچھ اور ہی تھا اس کے لیے۔۔۔اگلے ہی پل اپنی پشت کی طرف چھپائے ہوئے خنجر کو اس نے آگے کیا اور اس شخص کے سینے میں پیوست کر دیا۔۔۔
وہ شدید تکلیف اور حیرانگی سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا پھر ایک دم دوسرا ہاتھ بھی سینے پر رکھتے نیچے گرتا چلا گیا ۔۔۔
_____________
"اور میں اسی وقت وہاں سے بھاگ کر آپکے پاس آگئی تھی ۔۔۔یہی میری کہانی تھی."
خالی نظروں سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں نا جانے کیا تلاشتی وہ برہان احمد سے مخاطب تھی ۔۔۔ جب کہ کمرے کے باہر کھڑا وہ دوسرا وجود اپنی ہی نظروں میں گر گیا تھا ۔۔۔
اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ سرور سجاد حسین ہی تھا ۔۔۔
عبیر کے شوہر کا نام جب برہان کو پتا چلا تھا تو اس نے سرور سے رابطہ کیا تھا ۔۔۔اور سرور جو کہ خود غصّے میں آکر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی سر انجام دے چکا تھا ۔۔۔تھوڑی دیر بعد جب اسکا غصّہ کم ہوا تو اس نے ہر جگہ عبیر کو تلاش کیا تھا لیکن اسکا کوئی سراغ نہیں ملا تھا اسکے گھر بھی گیا لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھی ۔۔۔شہیر بھی اپنی فمیلی کے ساتھ ہی موجود تھا اسکے بعد اسے پچھتاووں نے ایسا گھیرا تھا کہ نا کھانے کا ہوش تھا نا پینے کا ۔۔۔ اخر وہ کہا چلی گئی تھی ؟۔۔۔ کہی اسکے ساتھ کچھ برا تو نہیں ہو گیا ؟ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی معاف نا کر پاتا خود کو ۔۔۔ اس نے کیسے نا یقین کیا اسکا وہ پورے دو سال اسکے ساتھ رہی اس سے مخلص رہی کہی بار وہ لفظوں میں بھی اپنی محبت کا اظہار کر چکی تھی ۔۔۔ وہ سرور کی محبت تو پا چکی تھی لیکن شائد اعتبار نہیں جیت سکی تھی ۔۔۔
آج عبیر کے منہ سے ساری سچائی جاننے کے بعد وہ جہاں خود کو خوش نصیب مان رہا تھا وہی اپنی ایک غلطی کی وجہ سے اپنی اولاد کے جانے کا غم بھی منا رہا تھا ۔۔۔اسکے پاس الفاظ نہیں تھے جن سے وہ اسکے سامنے جا کر معافی طلب کرتا ۔۔۔
عبیر کی عدت ختم ہو چکی تھی ۔۔۔ اور ساری بات جاننے کے بعد برہان احمد نے اسے سرور کے بارے میں بھی بتا دیا تھا اور سمجھایا تھا غلطی دونوں اطراف سے ہوئی تھی اور سزا بھی دونوں کو مل چکی ہے اب انکے اپنے ہاتھ میں تھا کہ یہی پر ہر چیز کا خاتمہ کر کے ایک نئی زندگی شروع کی جائے یا پھر دوبارہ سے مزید غلطیاں کر کے وقت گزر جانے کے بعد نادم ہوا جائے ۔۔۔
سرور اندر آیا تھا جہاں عبیر خاموش بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی ۔۔۔
" میں نے ۔۔۔ تمہیں ۔۔۔ کہاں ۔۔۔ کہاں ۔۔۔ نہیں۔ ڈھونڈا عبیر۔۔۔ "
سرور بمشکل ہی اپنی بات کہہ پایا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔کسی بچے کی طرح اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور عبیر کے سامنے گرنے کے انداز میں بیٹھ کر رونے لگا اور روتا ہی چلا گیا۔
عبیر اب بھی خاموش ہی رہی تھی ۔۔۔
" میرے اندر ابھی اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ میں تم سے معافی مانگ سکوں پہلے میں خود تو اپنے آپ کو معاف کر لوں۔ "
سرور نے اپنا رونا بند کر دیتے ہوئے کہا۔
" مجھ سے بھی غلطی ہوئی تھی سرور ۔۔۔ تم نے مجھے کوئی سزا نہیں دی ۔۔۔ میری غلطی کو بھول کر میرے گناہوں کو فراموش کر کے تم نے مجھے عزت دی ۔۔ مجھے لگتا تھا کہ مجھے ساری زندگی نظریں جھکا کر تمہارے سامنے رہنا پڑے گا کیوں کہ تم میرا راز جانتے تھے ۔۔۔ مگر تم نے اتنا اچھا رویہ میرے ساتھ رکھا کہ میں نے دو سال سر اٹھا کر تمہارے ساتھ گزارے ۔۔ میرا رب کہتا ہے کہ احسان کا کوئی بدلہ نہیں سوائے احسان کے ۔۔۔ دو سال پہلے مجھ سے نکاح کر کے میری غلطی کو معاف کرکے مجھے عزت دے کر مجھے شرمسار نہ کر کے ۔۔۔ جو تم نے مجھ پر احسان کیا ہے آج وہ احسان میں اتار دیتی ہوں تمہیں معاف کر کے ۔۔۔ لیکن میں تم سے صرف ایک ہی بات کی امید کرتی ہوں کہ مجھے پھر سے اپنا لو۔۔۔ اور آئندہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی مجھ سے بدگمان نہ ہونا کیونکہ آنکھ اور منظر کا بہت ہی عجیب سا تعلق ہوتا ہے ۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ جو منظر ہے اپنی آنکھوں سے دیکھیں وہی سب سچ ہو اس کے پس منظر میں بہت کچھ ہوتا ہے اور جب تک پس منظر کو نہ جان لو مجھے سزا نہ دینا ۔۔۔ میں نے اس سے نکاح صرف اس لیے کیا تھا کہ میں دوبارہ تم سے نکاح کر سکوں۔۔۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ اتنے وقت بعد میں اپنی صفائی تمہارے آگے پیش کروں گی تو تم میری بات کا یقین کر لو گے کیونکہ میں تمہیں بہت اچھے سے جان گئی تھی۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی اگر میں تمہارے پاس واپس آنا چاہتی ہو تو اس کی یہی وجہ ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے اور رہے گی کیونکہ تم ہو ہی محبت کے قابل۔۔"
عبیر نے کہا۔
" میں نے تمہاری بات سنے بغیر تمہیں سزا دی کیا تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ میں تمہاری محبت کے قابل ہوں؟ "
سرور نے کہا۔
" ہاں کیونکہ تم انسان تھے فرشتہ نہیں۔۔۔ "
عبیر نے کہا۔
"کیا شہیر مر چکا ہے ۔۔۔"
اتنی خاموشی کے بعد اس نے یہ سوال کیا تھا ۔۔۔
ہاں وہ مر چکا ہے ۔۔۔ لیکن تم نے اسے نہیں مارا ۔۔۔ سرور کی بات پر عبیر نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔
ہاں یہ سچ ہے تم اسے چاکو مار کر فرار ہو چکی تھی لیکن وہ بچ گیا تھا۔۔
اس کا دوست بروقت فلیٹ میں پہنچ گیا تھا جہاں اس نے تمہیں قید کر کے رکھا ہوا تھا۔۔۔ اس کا وہ دوست اتفاق سے آ گیا تھا۔اور تم نے بھی صحیح سے وار نہیں کیا تھا۔ تم نے اس کے دل پر نہیں بلکہ اس کے کاندھے پر وار کیا تھا۔
تمہارا نشانہ چوک گیا تھا ۔۔۔
اس کا دوست فوری طور پر اسے ہسپتال لے گیا اور وہ کافی دن ہسپتال میں رہنے کے بعد ٹھیک بھی ہو گیا تھا اور اس کے بعد تمہیں ڈھونڈنے نکلا اور کار ایکسیڈنٹ میں مارا گیا۔
اس کی موت جلدی ہو گئی تھی مگر تمہارے ہاتھوں نہیں۔۔۔
تم نے کوئی قتل نہیں کیا ہے اور یہ بھی شائد اللّه کا اشارہ ہی تھا کہ اتنا سب ہونے کے بعد بھی ہمیں ایک اور موقع ملا تھا ۔۔۔
پانچ سال بعد
عبیر کہا ہو جلدی کرو تمہارے لاڈلے (حسنین) نے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے پکڑو اسے اس نے پھر سے میری گود میں آتے ہی کپڑے خراب کر دیئے پتا نہیں اپنے باپ سے کیا دشمنی ہے اسکی ۔۔۔۔ عبیر کو باہر آتے دیکھ سرور نے ایک سالہ حسنین اسے تھمایا تھا جو کارنامہ کرنے کے بعد اب باپ کی صورت دیکھتا کھلکھلا رہا تھا ۔۔۔۔
اپ بھی نا ایک بچا سمبھال نہیں سکتے ۔۔۔ جائے اندر جا کر علینا (چار سالہ ) اور شاہزیب (3 سالہ) کو دیکھیں وہ پھر اپس میں جھگڑ رہے ہونگے۔۔۔ سمبھالے جاتے نہیں اور کل مجھ سے ایک اور بیٹی کی فرمائش کر رہے تھے عبیر نے منہ بناتے حسنین کو مسکرا کر دیکھا تھا اور اسکے کپڑے بدلنے لگی ۔۔۔
میرا ارادہ ابھی بھی بدلہ نہیں ہے علینا اکیلی ہے تو تم ایک کام کرو حسنین کے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے میری بات پر غور ضرور کرنا ۔۔۔۔جاتے ہوئے سرور نے شرارت سے دروازے سے منہ اندر کرتے وہی سے ہانک لگائی تھی۔۔۔اور عبیر کی گھوری دیکھتے قہقہ لگاتے بھاگا تھا کیوں کہ دوسرے کمرے سے دونوں بچوں کی رونے کی آواز باہر تک آرہی تھی ۔۔۔ اس سے پہلے عبیر پہنچتی اسے دونوں کو چپ کروانا تھا ۔۔۔
عبیر جب تک حسنین کپ لیکر آئی وہ تینوں ہنستے ہوئے بیڈ پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔۔۔ عبیر نے انکو خوش دیکھتے اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا جس نے ایک بار پھر اسکی زندگی حسین رنگوں سے بھر دی تھی ۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔