وہ اپنی فائلیں چیک کرنے میں مصروف تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے فائلوں سے نظر اٹھا کر دروازے پر کھڑی لڑکی کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔
وہ لڑکی کسی روبوٹ کی طرح چلتی ہوئی اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ اس کی طرف دیکھنے کی بجائے میز پر پر پڑے ان کی کتابوں کے ڈھیر کو دیکھ رہی تھی جو اس ماہرِ نفسیات نے لکھے تھے۔اور انہیں اپنی میز پر سجانے کے انداز میں رکھا ہوا تھا۔
مس عبیر کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ بے حد خوبصورت ہیں؟"
ماہرِ نفسیات برہان احمد کہتا ہوا مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وہ ہمیشہ اسی جملے سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتا تھا۔ اُسے لگتا تھا عبیر حقدار ہے اس تعریف کی۔
برہان احمد کے اس جملے پر عبیر نے ایک پل کو اپنی آنکھوں میں حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
برہان احمد نے محسوس کیا کہ اس کا جملہ سننے کے بعد اس کی آنکھوں میں ایک کرب اور درد بھر آیا تھا۔
"اگر آپ رونا چاہتی ہیں تو کھل کر رو لیں۔پھر اس کے بعد سے سیشن شروع کریں گے۔"
برہان احمد نے کہا۔
برہان احمد اسے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اچانک بولی۔
" میں نے اپنے شوہر کا قتل کر دیا ہے۔"
انتہائی سخت اثرات کے ساتھ وہ بولی تو برہان احمد چونک گیا۔۔۔
مس عبیر احسان، کیا یہ نفسیاتی قتل ہے یاں جسمانی؟"
برہان نے کہا
عبیر سوچ میں پڑ گئی۔
" آپ کو دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے آپ نے اپنے شوہر کو قتل کیا ہے کہ نہیں۔۔۔ لیکن آپ کے شوہر نے ضرور آپ کو مار دیا ہے۔۔۔ مجھے وہ عبیر نظر ہی نہیں آرہی ہے جس سے میں پہلے ملا تھا ۔۔
برہان احمد نے کہا۔
عبیر کی نظریں ابھی تک اُن کتابوں پر مرکوز تھیں۔
" کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟"
برہان احمد نے اگلا سوال کیا۔
" کوئی کسی کا قتل کیوں کرتا ہے؟ اس لیے کہ وہ وہ ناپسندیدہ شخص ہوتا ہے۔ ہم اس کا وجود اس دنیا میں برداشت نہیں کر سکتے۔اس لیے ہم اپنے ہاتھ سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔تاکہ دوبارہ ہمارا اُس سے سامنا نہ ہو۔دوبارہ وہ ہم پر ظلم نہ کرے۔ قتل نفرت میں کیا جاتا ہے اور مجھے اس سے نفرت تھی۔"
عبیر نے کہا۔
" قتل صرف نفرت میں ہی نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ محبت میں بھی قتل ہو جاتے ہیں۔ آپ سوچ کر بتائیں کہ یہ جو قتل آپ نے کیا ہے۔۔۔ کیا واقعی یہ آپ نے نفرت میں کیا ہے آپ کسی کی محبت پانے کے لیے؟؟؟"
برہان احمد کے اس سوال نے عبیر کو سوچ میں ڈال دیا تھا۔۔۔
" محبت؟؟؟ "
عبیر نے ہولے سے کہا۔
" ہاں محبت۔۔۔ ایک سنگین غلطی۔۔۔ جس نے آپ کو اس اسٹیج پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔۔۔"
برہان احمد نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
عبیر کے ذہن میں پھر سے فلم چلنے لگی۔۔۔ شروع سے لے کر آخر تک کی فلم۔
" کیا آپ کا شوہر واقعی مر گیا؟" برہان نے پوچھا۔
" معلوم نہیں ، میں نے چیک نہیں کیا۔ میں نے بس خنجر اُس کے سینے میں گاڑھ دیا اور وہاں سے بھاگ آئی۔" عبیر نے کہا۔
" اگر وہ بچ گیا تو آپ جانتی ہیں نا کہ وہ آپ سے بدلہ لیگا۔۔۔" برہان نے کہا۔
" ہاں ۔۔۔ وہ مجھے تلاش کرے گا۔۔۔ اور مجھے مار دیگا۔۔۔ پر وہ کہتا ہے کہ وہ میرے بغیر مر جائیگا۔۔۔ پھر وہ مجھے مار کر کرے گا کیا؟"
عبیر ٹرانس کی کیفیت میں بول رہی تھی۔
" اتنی محبت کرنے والا شوہر کیوں مار دیا آپ نے؟" برہان نے کہا۔
" کیوں کہ ۔۔۔ " عبیر آگے بولتی چلی گئی۔
برہان احمد کا ہر عضو کان بن گیا تھا۔
______________
اس نے دیکھا۔۔۔
ایک اندھیر نگری تھی۔۔۔
اور جو شخص اس کے مقابل کھڑا تھا اس کے ہاتھوں میں محبت سے گجرے پہنا رہا تھا۔
مسکرا کر اس کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔اس کی نظروں میں محبت صاف نظر آرہی تھی۔لیکن عبیر کی نظروں میں کچھ اور ہی تھا اس کے لیے۔۔۔اگلے ہی پل اپنی پشت کی طرف چھپائے ہوئے خنجر کو اس نے آگے کیا اور اس شخص کے سینے میں پیوست کر دیا۔۔۔
ایک جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھول دیں۔
" عبیر اب اٹھ بھی جاؤ۔اتوار ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم گھوڑے گدھے بیچ کر سوتی رہو. جانتی ہو اپنے باپ کو اچھے طریقے سے. صبح سے سو مرتبہ پوچھ چکا ہے تمہارا۔۔۔ "
سعدیہ بیگم نے اس کے چہرے پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے کہا۔
( غضب خدا کا۔۔۔ کب یہ منحوس خواب میری جان چھوڑے گا؟؟؟ ایک تو حقیقت میں چین نہیں۔۔۔ اوپر سے ان خوابوں نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔)
وہ کمبل کو پرے دھکیلتی ہوئی بڑبڑانے لگی اور اٹھی۔چپل پاؤں میں گھسیڑے، اور واش روم میں گھس گئی۔فریش ہو کر باہر آئی۔
ٹی وی لانچ میں خبر نامہ فل آواز میں چل رہا تھا ہمیشہ کی طرح۔ احسان احمد آج گھر پر تھے چھٹی کا دن تھا۔
عبیر کو ہمیشہ ہی اس خبر نامے سے خاص قسم کی چڑ تھی۔
وہ چائے کا مگ اٹھا کر سیڑھیاں چڑھنے لگی تو پیچھے سے احسان احمد نے پکارا۔
" کوئی ضرورت نہیں ہے چھت پر جا کر چائے پینے کی۔سکون سے گھر کے اندر بیٹھنا نہیں آتا تم لوگوں کو؟ "
احسان نے ہمیشہ کی طرح ٹوکا۔
اس نے جیسے ریورس گیئر لگایا۔ اور واپس کمرے میں آگئی۔
" کتنی مرتبہ کہا ہے کہ باپ کے سامنے چھت پر نہ جایا کرو برا لگتا ہے اسے۔ "
سعدیہ بیگم غصے سے اندر آئیں اور اس پر برس پڑیں۔
"عادت ہے صبح چھت پر چائے پینے کی۔یاد نہیں رہا تھا کہ ابا گھر پر ہیں۔"
عبیر نے بیزاری سے کہا اور چائے کے گھونٹ بھرنے لگی۔
" ایک تو تمہارا باپ سخت مزاج ہے۔ اور تمہاری حرکتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔"
سعدیہ نے کہا۔
" ابا کی یہ سختی صرف مجھ پر ہے امی۔ سدرہ پر تو نہیں۔"
عبیر نے آرام سے کہا۔
" ایسی بات نہیں ہے۔تم زیادہ خوبصورت ہونا۔۔۔ تو انہیں لگتا ہے کہ۔۔۔ "
سعدیہ نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
" انہیں لگتا ہے کہ میں خوبصورت ہوں اس لئے میں بری بیٹی ثابت ہو سکتی ہوں، اور ایسا کوئی کارنامہ ضرور کروں گی جس سے ان کی عزت پر حرف آئے۔صرف اس لئے کہ میں خوبصورت ہوں۔اگر میں بھی سدرہ کی طرح سانولی ہوتی۔ میرے نین و نقش معمولی ہوتے۔ میرے بال بے ڈھنگے ہوتے ۔۔۔ تو یقیناً وہ میرے بارے میں اس طرح سے نہ سوچتے۔ یعنی کہ انسان اولاد کو بھی اس کی صورت کے پیمانے میں تولتا ہے۔کون سی کتاب میں لکھا ہے امی، کہ جو بیٹی خوبصورت ہو گوری ہو وہ بری ثابت ہوگی۔اور جو سانولی ہو کم صورت ہو ہو وہ اچھی۔"
عبیر بظاھر نارمل لگ رہی تھی لیکن نارمل تھی نہیں۔ وہ باغی ہوگئی تھی اب۔
" دیکھو بیٹا۔۔۔ "
سعدیہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن عبیر نے ان کی بات کاٹ دی۔
" بیٹا نہیں بیٹی۔۔۔ بیٹی ہوں میں۔۔۔ آپ کو میری بیٹی ہونے پر شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ اور اپنے اندر کی عورت کو تسکین دلانے کے لئے مجھے بیٹا نہ کہیں مجھے بیٹی ہی رہنے دیں اور فخر سے کہیں کہ میں آپ کی بیٹی ہوں۔"
عبیر نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
اس نے اپنے پاؤں کمبل میں چھپا دیئے تھے آج سردی تھوڑی بڑھ رہی تھی حالانکہ موسم سرما ابھی آیا نہیں تھا آنے والا تھا لیکن آج کی صبح کافی سرد محسوس ہو رہی تھی۔اسی ٹھنڈ کو محسوس کرنے کے لیے وہ چھت پر جانا چاہتی تھیں لیکن۔۔۔
" تم تو بال کی کھال اتارنے میں لگ جاتی ہو۔ میں تو تمہیں تمہارے ابا کا مزاج سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔"
سعدیہ نے کہا۔
" بچپن سے آپ مجھے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں. آپ کو کیا لگتا ہے کہ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آیا ان کا مزاج؟؟؟ میں پاگل ہوں ؟ ابا مزاج کے سخت نہیں ہیں امی۔وہ مجھ سے خوفزدہ ہیں۔"
عبیر نے کہا۔
وہ چائے کا کپ ختم کر چکی تھی۔
________________
اگلی صبح جب احسان احمد آفس جانے کے لیے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آئے تو عبیر اُن کے سر پر آکر کھڑی ہوگئی۔
" ابا، مجھے یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے۔ "
بنا کوئی تحمید باندھے عبیر نے کہا تو سعدیہ بیگم نے اپنا سر پکڑ لیا۔( یہ لڑکی کبھی نہیں سدھر سکتی ) سعدیہ زیرِ لب بڑبڑای۔
چائے کا کپ ادھورا چھوڑ کر احسان احمد نے بغور عبیر کی شکل کو دیکھا۔
پھر سعدیہ کو ۔۔۔ پھر سدرہ کو ۔۔۔ علی ابرو اچکا کر رہ گیا۔
" علی ، سمجھاؤ اپنی سر پھری بہن کو، اسے میری زبان سمجھ میں نہیں آتی شاید۔"
احسان احمد نے اپنے پچیس سالہ بیٹے سے کہا۔
" ابا، جانے دیں نا ۔۔۔ آگے پڑھنا چاہتی ہے تو حرج ہی کیا ہے؟"
علی نے اُس کی وکالت کی تو عبیر نے چونک کر اُسے دیکھا۔( اللہ خیر ۔۔ آج یہ منحوس میری سائڈ کیوں لے رہا ہے؟" ) عبیر سوچ میں پڑ گئی۔
" تم نہیں جا سکتیں یونیورسٹی "
احسان احمد نے سختی سے کہا۔
" کیوں۔ نہیں جا سکتی میں؟ سدرہ بھی تو جاتی ہے ۔۔ میں بھی آپ کی بیٹی ہوں، جیسے سدرہ ہے جب اسے اجازت مل سکتی ہے تو پھر مجھے کیوں نہیں؟"
عبیر نے کرسی کھینچ بیٹھ گئی اور سوال کیا۔
" تم میں اور سدرہ میں بہت فرق ہے۔"
احسان احمد نے کہا۔
" کیا فرق ہے؟" عبیر نے پوچھا
" وہ میری فرمابردار بیٹی ہے۔وہ سمجھدار ہے۔"
احسان احمد نے کہا۔
" میں فرمابردار بھی ہوں اور سمجھدار بھی۔ یہ۔ تو کوئی فرق نہیں ہوا۔" وہ بولی۔
" عبیر ، کیوں ابا کو تنگ کر رہی ہو؟ جب انہوں نے کہہ دیا ہے تو ایک بات کے پیچھے کیوں پڑ رہی ہو؟"
سدرہ نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔
" نہیں، پہلے ابا مجھے فرق سمجھائیں۔ تم میں اور مجھ میں۔پھر میں تنگ نہیں کروں گی۔"
عبیر نے کہا۔
" بس، میں نے کہہ دیا کہ تم یونیورسٹی نہیں جا سکتیں تو نہیں جا سکتیں۔۔۔ "
احسان احمد غصے سے کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔
" میں بتاتی ہوں فرق ابا." عبیر بھی غصے سے کھڑی ہوگئی۔
" عبیر، بس کر دو۔" سعدیہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔
" عبیر، میں ہرگز برداشت نہیں کروں گی کہ تم ابا کو اس طرح سے پریشان کرو۔" سدرہ نے کہا۔
" میں صرف فرق بتا رہی ہوں ان کو۔۔۔ یہی فرق ہے ابا مجھ میں اور سدرہ میں کے میں گوری ہوں اور سدرہ سانولی۔۔۔ بچپن سے مجھے میرے گورے رنگ کی سزا دیتے جا رہے ہیں آپ اور امی۔اور تو علی بھی پیچھے نہیں اس کام میں۔کیا کروں ابا بتائیں؟؟؟ اپنے چہرے پر تیزاب پھینک دوں؟؟؟ تاکہ میں بھی سدرہ کی طرح کھلی ہوا میں سانس لے سکوں۔۔۔ میں بھی اپنی مرضی سے پڑھائی کر سکوں۔۔۔ میں بھی شادیوں میں جاؤں ۔۔۔ میں چھت پر جا کر چائے پی سکوں۔۔۔ بنا کسی خوف کے۔۔۔ ابا میں بازار تک نہیں جا سکتی اپنی چیزیں لینے کے لیے۔۔۔ صرف اس لیے کے آپ کو مجھ سے خوف آتا ہے ۔۔۔ ڈرتے ہیں آپ کہ میں باہر نکلی تو ۔۔۔"
بس کر دو عبیر۔
علی نے زور سے میز پر اپنے دونوں ہاتھ مارتے ہوۓ کہا۔
" سعدیہ۔۔۔ اسے سمجھا دو ۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا "
احسان احمد کہتے ہوئے آفس کے لیے نکل گئے۔
" یہ جو زبان چلنے لگی ہے نا تمہاری آج کل بہت ہی زیادہ کھینچ لوں گا کسی دن۔" علی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
" جاؤ جاؤ آفس، ہزار انٹرویو دینے کے بعد جا کر اس بڑھاپے میں جاب ملی ہے تمہیں۔ کہیں یہ بھی نہ چلی جائے۔" عبیر نے کہا۔
" یہ بڑھاپے والی کیا بات کی؟ پچیس سال کا جوان ہے میرا بیٹا " سعدیہ کو اس بات پر غصّہ آگیا۔
" تم سے تو واپس آکر نمٹ لونگا۔" علی کہتا ہوا نکل گیا۔
" مطلبی انسان ، میری وکالت میں بھی اس کا کوئی مطلب ہوگا ضرور۔" عبیر نے کہا
" تم یونیورسٹی کی بات کر رہی ہو؟ ابا کل مجھ سے کہہ رہے تھے کہ عبیر سے کہو اب پرائیویٹ بی اے کر لے۔"
سدرہ نے کہا تو عبیر کو جیسے آگ لگ گئی۔
" یہ ابا نے تم سے نہیں ۔۔۔ بلکہ تم نے ابا سے کہا ہوگا۔ " عبیر نے کہا۔
" عبیر ، کبھی ناشتے کی میز پر تماشہ لگا دیتی ہو تو کبھی کھانا حرام کر دیتی ہو سب کا؟ تم کو سکون سے رہنا نہیں آتا" سعدیہ کہتے ہوۓ برتن سمیٹنے لگیں۔
" امی، میں نے کہہ دیا ہے کہ میں یونیورسٹی سے ہی گریجویشن کروں گی اور بس۔"
وہ صوفے کی طرف آئی اور بیٹھتے ہوۓ بولی۔
" اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس " احسان احمد اندر آتے ہوئے آرام سے بولے۔
" آپ تو آفس گئے تھے نا؟ " سعدیہ نے کہا۔
" ضروری فائل بھول گیا تھا۔وہ لینے آیا ہوں۔" احسان احمد نے کہا۔
" یہ ایک نیا بہانہ سن لیں۔" عبیر بولی۔
" عبیر، تم بھی ویسے ہی میری بیٹی ہو جیسے سدرہ۔میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کے سدرہ سمجھدار تھی۔ تم چھوٹی ہو۔ نا سمجھ ہو۔تم کو نہیں پتہ زمانے کا۔"
احسان احمد نے دیکھا جب غصے سے کام نہیں بنا تو آرام سے سمجھانے لگے۔
" دو سال چھوٹی ہوں بس سدرہ سے۔ لیکن آپ اب بہانے بناتے جائیں گے بس۔" وہ رونے لگی
" میرے پاس تمہارا کوئی حل نہیں " وہ کہتے ہوئے پھر سے نکل گئے۔
________________
رات کو سونے کے لیے سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
" مان لیں نہ بات عبیر کی۔حرج ہی کیا ہے؟ سدرہ بھی تو پڑھ رہی ہے یونی ورسٹی میں۔" احسان احمد سونے کے لیے لیٹے تو سعدیہ بیگم نے کہا۔
" اُسے کالج میں پڑھنے سے کیا مسلہ ہے؟" احسان احمد آرام سے بولے۔
" شوق ہے اُسے۔" سعدیہ نے کہا۔
" پڑھائی تو پڑھائی ہے۔ کالج میں ہو یاں یونی ورسٹی میں۔ کیا فرق پڑتا ہے؟" احسان احمد نے کہا۔
" ہاں لیکن آج کل سب ہے یونی ورسٹی میں پڑھ رہی ہیں۔ اسکی سہیلی حریم بھی یونی ورسٹی میں داخلہ لے رہی ہے۔ تو اُسے بھی شوق ہوا۔ کالج کی باقی لڑکیاں بھی یونی ورسٹی میں جا رہی ہیں۔ وہاں سے ہی گریجویشن کریں گی۔ تو اُسے احساسِ کمتری نہ ہو۔" سعدیہ بیگم نے کہا۔
" دیکھو، میں ڈرتا ہوں۔ اُسکی صورت سے۔ یونی ورسٹی میں لڑکے ہوتے ہیں۔ اور وہ کم عقل ہے۔ نادان ہے۔ اور لڑکے بہت چالاک ہوتے ہیں۔ وہ عبیر جیسی لڑکیوں کو شادی کے خواب دکھا کر اُن کے جذبات سے کھیلنے کے بعد اُن کو بدنام کر دیتے ہیں۔ اور اکثر لڑکیاں بہک جاتی ہیں۔ غلط قدم اٹھا لیتی ہیں لڑکوں کے کہنے پر۔ تم خود سوچو۔ اگر عبیر یونی ورسٹی جائیگی تو کیا لڑکے اُسے تنگ نہیں کریں گے؟ اُسے بہکانے کی کوشش نہیں کریں گے؟ اور اگر وہ بہک گئی تو؟؟؟"
احسان احمد نے اپنے اندر کا خوف ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
" میں اُسے سمجھا کر بھیجوں گی۔" سعدیہ نے کہا۔
" یہ عمر جو ہوتی ہے نا۔۔۔ اس عمر میں کوئی نصیحت کام نہیں کرتی۔ ایک چسکا ہوتا ہے حرام تعلق کا۔۔۔ یہ ایک ایسا خمر ہے جس کا علاج ممکن نہیں۔ "
احسان احمد نے کہا۔
" مجھے دکھ ہوتا ہے عبیر کا۔ جب سے بڑی ہوئی ہے تب سے اُس پر پابندیاں ہیں۔ نہ بازار گئی ہے چار سال سے۔ نہ کسی شادی میں۔ نہ کسی دعوت میں۔کب تک ہم اسے چھپا کر رکھیں گے دنیا سے اگر اس کا رشتہ بھی تو ڈھونڈنا ہے۔کسی شادی میں جائے گی کسی دعوت میں یونیورسٹی میں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اچھا رشتہ آجائے۔" سعدیہ نے کہا۔
" تم نہیں جانتی ہو باہر کی دنیا کو۔باہر رشتے نہیں ہیں۔ بھیڑیے بیٹھے ہیں بھیڑیے ۔۔۔ شادی کے نام پر دھوکا دینے والے ۔ میں اس کا باپ ہو اور وقت آنے پر اس کے لیے اچھا رشتہ تھا تلاش کر سکتا ہوں۔ اس مقصد کے لیے اُسے باہر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں دیکھ لونگا کوئی خاندانی لڑکا۔لیکن ابھی اُسے کہو پرائیویٹ بی اے کر لے گھر بیٹھے ۔" احسان احمد نے کہا۔
" تو کیا کالج بھی نہیں جانے دینگے اسے؟" سعدیہ نے پوچھا۔
" پتہ نہیں۔" احسان احمد میں کہہ کر آنکھیں بند کر دیں۔
سعدیہ بیگم پریشان ہوگئیں۔
ایک طرف بیٹی کی ضد تھی تو دوسری طرف شوہر کی ضد۔
سعدیہ بیگم کو اپنی بیٹی کا دکھ ہو رہا تھا۔
دنیا میں ہزاروں خوبصورت لڑکیاں باہر جاتی ہیں۔اور ہزاروں ایسی ہیں جن کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوتا ہے۔لیکن احسان احمد کی اپنی ذہنیت تھی۔
________________
رات کا تیسرا پہر بھی آن پہنچا تھا۔
وہ پہلو بدل بدل کر تھک گئی تھی۔
لیکن نیند نہیں آ رہی تھی۔
اسے دکھ ہو رہا تھا۔
جب سے اس نے لڑکپن میں قدم رکھا تھا تب سے اس کے والد احسان احمد نے اس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا۔بس اسکول جاتی تھی اور اسکول سے گھر۔ اس کا بڑا بھائی علی اسے اس کو لے کر جاتا تھا اور واپس بھی لے کر آتا تھا۔
اسکول آتے جاتے اسے لگتا تھا کہ وہ سزائے موت کے قیدی ہے۔جسے انتہائی نگہداشت اور نگرانی میں اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول لایا جاتا ہے۔ سارا رستہ علی بھی اپنی آنکھیں چار کیے رکھتا تھا۔ علی بھی احسان احمد سے کم نہیں تھا سختی میں۔
علی اسے صلواتیں بھی سناتا تھا کیونکہ وہ تھک گیا تھا اس نوکری سے۔ کالج میں پُہنچی تو پابندیاں ویسی ہی تھیں۔ اپنی اکلوتی سہیلی کی سالگرہ میں بھی جانے کی کبھی اجازت نہیں ملی تھی اُسے۔
موبائل ملا تو اس میں پاسورڈ لگانے کی اجازت نہیں ملی۔ اور احسان احمد یاں علی بہانے سے اچانک اُس کا موبائل مانگ لیتے جاسوسی کے لیے۔
کبھی علی کہتا کہ اس کا نیٹ پیکج ختم ہوگیا ہے۔اس بہانے سے اس کا موبائل لے جاتا اور پوری جاسوسی کرتا۔کبھی احسان احمد اچانک مانگ لیتے۔
پہلے اُسے لگا واقعی اُن کو ضرورت ہے۔ پھر جب ہوش آنے لگا تو سمجھ گئی کے یہ دونوں اُس پر انتہا سے زیادہ شک کرتے ہیں۔ اور اسی لیے اُس کا موبائل مانگتے ہیں۔
لیکن اس کا دل صاف تھا۔ وہ بس اپنی سہیلی حریم سے بات کرتی تھی۔
اور جب خریداری کرنے کے لئے سعدیہ اور سدرہ بازار جاتی تھیں تو وہ خوب واویلہ کرتی سعدیہ کے سامنے ۔لیکن احسان احمد کے سامنے بولنے کی اُس کی ہمت نہیں تھی۔ وہ بے حد ڈرتی تھی اپنے باپ سے۔ لیکن آج اُس نے ہمت کی اور کہہ ڈالا۔یہ ہمت اُسے حریم نے دی تھی۔
لیکن اب اُسے لگ رہا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا اس بغاوت کا بھی۔
اس نے موبائل اٹھایا اور حریم کو پیغام بھیجا۔
" نہیں ملی اجازت۔" اُس نے پیغام لکھا اور ہواؤں کی نظر کر دیا۔
میلوں دور سکون کی نیند سوتی ہوئی حریم کا موبائل تھرتھرایا تھا۔
اس نے ایک آنکھ کھول کر پیغام دیکھا۔
" یہ کوئی وقت ہے میسیج کرنے کا؟" حریم کا جواب آیا۔
" یار مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔ مجھے غصّہ آرہا ہے۔ " عبیر نے لکھا۔
غصّہ مت کرو۔ کل سوچتے ہیں کچھ۔۔۔ " حریم نے جواب دیا۔