رہی دیں سے دل کو نہ اب استواری
ہمیں شرمساری سی ہے شرمساری
مودّت، محبت، مروت سے عاری
نگاہوں سے اترا اب انساں ہماری
وفاداریاں اور دنیائے دوں سے
یہ کس کی ہوئی ہے جو ہو گی تمہاری
سمیٹا ہے دنیا کا سرمایۂ غم
عجب ہے غریبوں کی سرمایہ داری
وہی شدتِ غم، وہی بے بسی ہے
وہی نالۂ دل، وہی آہ و زاری
محبت جگہ کرتی ہے خود ہی دل میں
محبت نہیں شے ہے خود اختیاری
تعجب ہے دل کو، نظرؔ محو حیرت
ہیں بندے خدا کے، صنم کے پجاری
٭٭٭