مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی
کُجا سیرت، کہ صورت تک بھی پہچانی نہیں جاتی
حدیثِ غم سنانے سے پریشانی نہیں جاتی
مگر کچھ لوگ ہیں جن کی یہ نادانی نہیں جاتی
جنابِ شیخ بول اٹھیں، بہ ہر مبحث، بہ ہر موقع
کہ ان کی خوئے پندارِ ہمہ دانی نہیں جاتی
سنا سیلِ تمنا میں ہزاروں شہرِ دل ڈوبے
مگر پھر بھی تمناؤں کی طغیانی نہیں جاتی
سجایا ہم نے تصویرِ بتاں سے خانۂ دل کو
مگر با ایں ہمہ اس گھر کی ویرانی نہیں جاتی
محمدؐ مصطفیٰ کی شانِ رفعت کوئی کیا جانے
جہاں وہ ہیں وہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
کیا لوگوں نے گرد آلود کتنا چہرۂ ماضی
نظرؔ حیرت ہے پھر بھی اس کی تابانی نہیں جاتی
٭٭٭