دل پہ اُف عاشقی میں کیا گزرا
حادثہ روز اک نیا گزرا
کچھ برا گزرا، کچھ بھلا گزرا
یونہی دنیا کا سلسلہ گزرا
وہ ستم گر، نہ اس میں خوئے ستم
پھر یہ کیوں شک سا بارہا گزرا
پھر ہرے ہو گئے جراحتِ دل
پھر کوئی سانحہ نیا گزرا
ہو کوئی حال اہلِ محفل کا
آج میں حالِ دل سنا گزرا
تاب دل میں مرے کہاں باقی
کیا سنائیں جو ماجرا گزرا
دیں کا دامن چھٹا نظرؔ جب سے
حالِ مسلم ہوا گیا گزرا
٭٭٭