نکالو بزم سے تم حاشیہ نشینوں کو
تو ہم بھی جمع کریں پھر تماشہ بینوں کو
سمجھ حقیر نہ تو بوریہ نشینوں کو
اتار لیتے ہیں یہ عرش کے مکینوں کو
کسی طرح بھی وہ اپنا نہ بن سکا اب تک
کہ آزما تو لیا ہم نے سو قرینوں کو
شریکِ سازشِ دریا جو ناخدا بھی رہے
تو موج اٹھ کے ڈبوتی رہی سفینوں کو
ہلائے دیتے ہیں اپنے ہی ہاتھوں بنیادیں
مکاں سے نسبتِ معکوس کے مکینوں کو
عروجِ زیست کی منزل میں بے مثال ہیں ہم
بہ جست گام کیا طے ہزار زینوں کو
تمہارے نقشِ قدم کی نہ تھی جہاں خوشبو
جھکا سکے نہ کبھی ہم وہاں جبینوں کو
جِلا نظرؔ کو لگن دل کو اور جگر کو خلش
بہ فیضِ عشق ملا کچھ نہ کچھ ہے تینوں کو
٭٭٭