وہی بجلیوں کی چشمک، وہی شاخِ آشیانہ
وہی میری زاریاں ہیں، وہی نالۂ شبانہ
بہ ادائے والہانہ، کوئی جہدِ مخلصانہ
مجھے چاہیے نہ واعظ، یہ کلامِ ناصحانہ
مری گردشیں ہیں ساری مرے اپنے ہی عمل سے
نہ نوشتۂ مقدر، نہ نوشتۂ زمانہ
ابھی سن رہے تھے ہنس کر، ابھی اٹھ گئے بگڑ کر
کہ سمجھ گئے بالآخر وہ حقیقتِ فسانہ
مرے آگے مسکرائے تو بہ طنزِ دل شکن وہ
مرے سامنے ہنسے تو، بہ ادائے جارحانہ
تہی دامنِ عمل ہے مری غفلتوں سے ورنہ
مری دسترس میں ہے تو تری یاد کا خزانہ
کوئی مدعا نظرؔ ہے، کوئی مصلحت ہے پنہاں
ابھی لے رہا ہے رہ رہ کے جو کروٹیں زمانہ
٭٭٭