عطرِ غمِ محبت کیوں خاک میں ملائیں
آنکھوں میں جو ہیں آنسو کیوں ضبط کر نہ جائیں
دنیا کی ہر روش کی تقلید کیا ضروری
ایماں فروزِ دل ہو نغمہ وہی سنائیں
ساری علامتیں ہیں شاید کہ شہرِ دل کی
ہر سمت ہے اداسی منظر ہے سائیں سائیں
خورشید و ماہ و انجم روشن گرِ جہاں ہیں
وہ روشنی بھی دیکھو دل جس سے جگمگائیں
شاید سنیں سمجھ کر قصہ یہ غیر کا ہے
اپنی ہی داستاں کو اس طرز پر سنائیں
دل کی یہ کشمکش ہے اپنے ہی رنج و غم سے
اشکوں سے کوئی کہہ دے یہ درمیاں نہ آئیں
صرفِ نظرؔ کرے گا تیرا کرم خدایا
اس آسرے پہ سرزد کچھ ہو گئیں خطائیں
٭٭٭