فرصت نصیب از لعب و ہاؤ و ہُو نہیں
مدت سے میری دل سے ہوئی گفتگو نہیں
ساقی نہیں، وہ بادۂ و جام و سبو نہیں
وہ مستیِ شبانہ وہ جوشِ لہو نہیں
یکسو ہوا ہوں میری نگہ سو بہ سو نہیں
تجھ کو ہی دیکھنا ہے تو کیا دل میں تو نہیں
مانا رہِ طلب میں قدم زن نہیں ہوں پر
یہ بھی نہیں کہ دل میں تری آرزو نہیں
اے دل اب آ تجھی سے بجھائیں سخن کی پیاس
خلوت میں اب یہاں تو کوئی تند خو نہیں
میں ہوں شکست خوردۂ نفسِ ستیزہ کار
دل میں سکت بدن میں وہ جوشِ لہو نہیں
سیجوں پہ رہ کے ہو نہ گیا گل پریدہ رنگ
خاروں کے درمیاں جو نظرؔ تھی وہ بو نہیں
٭٭٭