جہاں میں جنسِ وفا کم ہے کالعدم تو نہیں
ہمارے حوصلۂ دل کو یہ بھی کم تو نہیں
ہم ایک سانس میں پی جائیں جامِ جم تو نہیں
سرشکِ غم ہیں پئیں گے پر ایک دم تو نہیں
تمہارے قہر کی خاطر اکیلے ہم تو نہیں
نگاہِ مہر بھی ڈالو تمہیں قسم تو نہیں
خدا کا گھر ہے مرا دل یہاں صنم تو نہیں
یہ میکدہ تو نہیں ہے یہ کچھ حرم تو نہیں
مرے غموں کا تجھے کیا لگے گا اندازہ
کہ تجھ کو اپنے ہی غم ہیں پرائے غم تو نہیں
مرے خیال میں پیچیدگی سہی لیکن
تمہاری زلفوں کی مانند پیچ و خم تو نہیں
جنوں نہیں ہمیں پیچھے لگیں جو دنیا کے
خدا کے بندے ہیں ہم بندۂ شکم تو نہیں
ہزار کیف بہشتِ بریں میں ہیں لیکن
دل اپنا جس کا ہے خوگر وہ کیفِ غم تو نہیں
لگے گی دیر سنبھلنے میں لغزشِ دل سے
سنبھل کھڑے ہوں نظرؔ لغزشِ قدم تو نہیں
٭٭٭