ترا ساتھ ہو میسر تو یہ زندگی کنارا
نہ نصیب ہو معیّت تو یہ جیسے بیچ دھارا
میں غریقِ بحرِ غم تھا ترے عشق نے پکارا
یہ اِدھر رہا کنارا یہ ادھر رہا کنارا
نہ ٹھہر سکا تبسم نہ ہی قہقہہ ہمارا
کہ بہت ہی تیز رو ہے غمِ زندگی کا دھارا
تری دوستی نے پرکھا مرا امتحان لے کر
کبھی خنجر آزمایا کبھی آگ سے گزارا
کسی زُلفِ مشک بو نے کسی روئے پُر ضیا نے
مری شام کو سنوارا مری صبح کو نکھارا
گہے اضطرابِ دنیا گہے پیچ و تابِ عقبیٰ
مرے اس اکیلے دل کو غمِ دو جہاں نے مارا
مرے ناخدا بتا کچھ ہے کہاں مرا سفینہ
نہ اِدھر نظرؔ میں ساحل نہ اُدھر کوئی کنارا
٭٭٭