جذبۂ عشقِ شہِ ہر دو سرا ہے کہ نہیں
دیکھیے دل کو مسلمان ہوا ہے کہ نہیں
کون سا زیست میں وہ تلخ مزا ہے کہ نہیں
ایسے جینے سے تو مرنا ہی بھلا ہے کہ نہیں
میری ہر بات پہ تم نے جو کہا ہے کہ نہیں
خود ہی سوچو یہی جھگڑے کی بنا ہے کہ نہیں
حوصلہ ہے کہ میں محرومِ بیاں رکھتا ہوں
کون سا تجھ سے مجھے ورنہ گِلہ ہے کہ نہیں
اس قدر مشقِ ستم دل پہ عیاذاً باللہ
ارے ظالم تجھے کچھ خوفِ خدا ہے کہ نہیں
وائے تقدیر سنبھلتا ہی نہیں حالِ نظرؔ
کون سی ورنہ دوا اور دعا ہے کہ نہیں
٭٭٭