بے تابیاں نہیں ہیں کہ رنج و الم نہیں
اِس ایک دل پہ عشق کے کیا کیا کرم نہیں
دو دن کی زندگی اسے صدیوں سے کم نہیں
وہ کم نصیب ہے جسے توفیقِ غم نہیں
دنیا ستم طراز سہی کوئی غم نہیں
دنیا سے بھاگ جائیں مگر ایسے ہم نہیں
منزل مری جدھر ہے رخِ دل اُدھر کہاں
صد حیف مجھ سے دل ہی مرا ہمقدم نہیں
دنیا کی اس بساط پہ اللہ رے انقلاب
آدم ہی ایک چیز ہے وہ بھی اہم نہیں
اپنی شکست مان لے اے خنجر آزما
خنجر میں تیرے خم ہے مرا سر تو خم نہیں
کرنا ہے اعتبار تو کر لو نظرؔ پہ تم
سچی ہو بات پھر بھی وہ کھاتا قسم نہیں