اس حقیقت سے میں نا محرم نہیں
ہو تمہیں تم اور کچھ بھی ہم نہیں
ابنِ آدم کی یہ دل بیزاریاں
چند انساں بھی تو خوش باہم نہیں
دل ابھی تک موردِ اوہام ہے
رشتۂ ایماں ابھی محکم نہیں
وہ بتِ کافر بھی اُف کہنے لگا
بازوئے مسلم میں اب دَم خَم نہیں
ڈگمگاتے ہیں قدم چلنا محال
دردِ الفت کی چمک پیہم نہیں
کثرتِ غم ہے علاجِ غم نظرؔ
کون کہتا ہے علاجِ غم نہیں
٭٭٭