دل میں جو خلش پنہاں ہے کہیں، اس کا ہی تو یہ انجام نہیں
دل وقفِ غم و آلام ہوا، اب دل میں خوشی کا نام نہیں
مرہونِ حقیقت ہیں اب ہم، باطل سے ہمیں کچھ کام نہیں
احسانِ نگاہِ ساقی ہے، اب شغلِ مئے گل فام نہیں
احساسِ زیاں تو رکھتے ہیں، لیکن یہ بروئے کار بھی ہو
منزل کی طلب ہے دل میں مگر، منزل کی طرف اقدام نہیں
خورشیدِ منور، نجمِ فلک، دونوں سے سبق یہ ملتا ہے
جو شام کو آیا صبح نہیں، جو صبح کو آیا شام نہیں
اے جادۂ الفت کے راہی، اے خوبیِ قسمت کے مالک
تُو فائزِ منزل ہو کہ نہ ہو، ہر حال میں تُو ناکام نہیں
رنگینیِ فطرت ہے قائم، پر ان کے ایک نہ ہونے سے
اب صبح میں کیفِ صبح نہیں، اب شام میں کیفِ شام نہیں
بس نفس سے رشتہ باقی ہے، اب روح سے رشتہ ٹوٹ چکا
جینے کی دعا کیوں دیتے ہو؟ زندوں میں نظرؔ کا نام نہیں
٭٭٭