یہ برہمی یہ تری بے رخی قبول نہیں
کسی بھی رخ، یہ رخِ زندگی قبول نہیں
وہ سن لیں جن کو غمِ زندگی قبول نہیں
کہ زندگی کو بھی ان کی خوشی قبول نہیں
جو میرے ہوش اڑا دے، حواس گم کر دے
خدا پناہ کہ وہ آگہی قبول نہیں
نکالتا ہوں محبت کی کچھ نئی راہیں
شکستِ دل سے مجھے آشتی قبول نہیں
خودی کو میری جگا دے، وہ مئے پلا ساقی
خطا معاف، مئے بے خودی قبول نہیں
پیامِ مرگ ہی لائے نہ کیوں، سحر تو ہو
شبِ فراق کی یہ تیرگی قبول نہیں
یہ قہقہے یہ تبسم تجھے مبارک ہوں
کہ چار دن کی مجھے چاندنی قبول نہیں
رہِ حیات ہے واضح بفضلِ رب اپنی
اِدھر اُدھر کی نظرؔ کج روی قبول نہیں
٭٭٭