کہاں پہ جلوۂ جاناں کا انعکاس نہیں
نگاہ دیکھنے والی ترے ہی پاس نہیں
کوئی بھی شکل نہ دیکھی کہ جو اداس نہیں
ہوائے گلشنِ ہستی کسی کو راس نہیں
بفیضِ عشق میسر نہیں ہے کیا دل کو
خلش نہیں کہ نہیں رنج و غم کہ یاس نہیں
یہ قولِ اہلِ خرد ہے ہمیں نہیں کہتے
سکونِ دل کا مداوا خرد کے پاس نہیں
خود اپنی ذات کا عرفان تجھ پہ ہے لازم
کہ خود شناس نہیں جو خدا شناس نہیں
ستم کے بھیس میں پنہاں کوئی کرم ہو گا
ستم کرے وہ یہ کہتا مرا قیاس نہیں
کلام حق ہے مگر بات یہ بھی ہے بر حق
جنابِ شیخ کی باتوں میں کچھ مٹھاس نہیں
چمن پہ اہلِ چمن کے سبب گری بجلی
سنی ہے جب سے خبر یہ بجا حواس نہیں
نظرؔ فریب تو ہے دل پسند ہو نہ سکا
وہ پھول جس میں بجز رنگ کوئی باس نہیں
٭٭٭