میں گرچہ اسیرِ افسونِ ظلماتِ شبِ دیجور نہیں
پھر بات یہ کیا ہے اے ہمدم! کیوں مطلعِ دل پر نور نہیں
تحصیلِ جناں مطلوب نہیں، مقصودِ عبادت حور نہیں
جز تیری رضا، جز تیری خوشی، کچھ اور مجھے منظور نہیں
آزادی انساں کا مبحث دو رُخ سے سمجھنا ہے یعنی
مختار ہے اور مختار نہیں، مجبور ہے اور مجبور نہیں
اک بار ذرا سے ہنسنے کا انجام کلی نے دیکھ لیا
تقریبِ مسرت کا یعنی دنیا میں کوئی دستور نہیں
اللہ رے پاسِ ناراضی، اللہ رے پاسِ دلداری
جو بات انہیں منظور نہیں، وہ بات مجھے منظور نہیں
اے مردِ مسلماں ہمت رکھ، اے مردِ مجاہد کوشاں رہ
اسلام کا پرچم لہرائے ہر بام پہ وہ دن دور نہیں
اف شانِ وجودی کیا کہنے، اف شانِ حجابی اس کی نظرؔ
موجود ہے اور موجود نہیں، مستور ہے اور مستور نہیں
٭٭٭