خدا کی نعمتوں سے نعمتیں کچھ اور کر پیدا
خدا نے آنکھ دی تو کر محبت کی نظر پیدا
یہ ہوتے ہیں بہ فیضِ سوزشِ قلب و جگر پیدا
کہ آنکھیں خود نہیں کر سکتیں اشکوں کے گہر پیدا
تری خانہ خرابی سے ہے میرے دل میں ڈر پیدا
کسی صورت سے کر لے تو دلِ یزداں میں گھر پیدا
ازل کے دن اٹھا ہم نے لیا بارِ امانت کو
تو آپ اپنے ہی ہاتھوں کر لیا ہے دردِ سر پیدا
جہاں تعمیر کا ساماں وہیں تخریب کا پہلو
نشیمن کو جلانے کے لئے برق و شرر پیدا
جلا دے جامۂ ہستی گل و گلزار کے طالب
کہ بے سوزِ جگر ہوتا نہیں خونِ جگر پیدا
جو خود معیار بن جائے خرابی اور خوبی کا
زِ قرآنِ مبیں کر لے تو وہ ذوقِ نظرؔ پیدا
٭٭٭