جو عقدہ کشا ہے وہ سرا بھول گئے ہیں
کیا بھول ہے ہم دینِ خدا بھول گئے ہیں
پھر ظلمتِ دل ڈسنے کو آئی ہے ہمیں آہ
شبگوں جو تری زلفِ دوتا بھول گئے ہیں
جھگڑا نہ فرو ہو گا ہمارا یہ کسی سے
ہم اصل میں جھگڑے کی بنا بھول گئے ہیں
پھر عقلِ دل آزار کی باتوں میں ہم آئے
پھر ہم نگہِ ہو شربا بھول گئے ہیں
آرامِ دل و جاں کے تعاقب میں ہیں فی الحال
کچھ یہ تو نہیں راہِ وفا بھول گئے ہیں
گزرے گی مری زیست کس انداز و ادا سے
ہم اس کی اب ایک ایک ادا بھول گئے ہیں
حسرت میں بدل جانے دو ان آرزوؤں کو
ہم دل کو نظرؔ بہرِ خدا بھول گئے ہیں
٭٭٭