وہ جب سے بد گمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں
ہمیں بے کیف سے کون و مکاں معلوم ہوتے ہیں
وہ رگ رگ میں مری روحِ رواں معلوم ہوتے ہیں
نظر آئیں نہ آئیں دلستاں معلوم ہوتے ہیں
اِدھر ذرے ہیں تابندہ، اُدھر تارے درخشندہ
ترے جلوے زمیں تا آسماں معلوم ہوتے ہیں
مرے قصے میں ضمناً آ گئے تھے تذکرے ان کے
وہی وجہِ فروغِ داستاں معلوم ہوتے ہیں
وہی آغازِ ہر عنواں وہی انجامِ ہر عنواں
وہی ہر داستاں کے درمیاں معلوم ہوتے ہیں
بڑا ہی شور برپا ہے غزل خواں کون ہے ایسا
سرِ محفل نظرؔ رطب اللساں معلوم ہوتے ہیں
٭٭٭