دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں
منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں
جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے
کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں
وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم
مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں
دیکھیں نہ تو ان کی بے نوری، سمجھیں نہ تو ان کی ناسمجھی
قدرت کے اشارے تادیبی، بندوں کو تو پیہم ہوتے ہیں
رندوں کی نگاہیں کیوں نہ اٹھیں، ساقی کی نگاہوں کی جانب
ساقی کی نگاہوں سے ظاہر اسرارِ دو عالم ہوتے ہیں
احساسِ محبت، رنج و الم، ہم رشتہ و پیوستہ ہیں نظرؔ
یہ بطنِ ازل سے پیدا ہی کہتے ہیں کہ تواَم ہوتے ہیں
٭٭٭