دکھا دکھا کے وہ ہر نیک کام کرتے ہیں
جنابِ شیخ بھی کارِ حرام کرتے ہیں
خدا پناہ وہ اب ایسے کام کرتے ہیں
کہ فتنے دور سے ان کو سلام کرتے ہیں
یہ چاندنی یہ ستارے یہ عالمِ ہجراں
ہماری نیند یہ مل کر حرام کرتے ہیں
طلوعِ صبح کے آثار دور دور نہیں
دراز وہ تو ابھی زلفِ شام کرتے ہیں
بس اتنی بات پہ یارانِ بزم ہیں نا خوش
پرانی قدروں کا ہم احترام کرتے ہیں
نچوڑ دیں گے ہر آنسو ہم آج آنکھوں سے
ہم آئے دن کا یہ جھگڑا تمام کرتے ہیں
ہجومِ جلوۂ رنگیں میں کھو نہ جائے دل
ہم احتیاطِ نظرؔ گام گام کرتے ہیں
٭٭٭