نقش یادوں کے تری دل سے مٹے جاتے ہیں
آپ ہم اپنی نگاہوں میں گرے جاتے ہیں
لاکھ پردوں میں وہ حالانکہ چھپے جاتے ہیں
پھر بھی دل جلووں سے مسحور کئے جاتے ہیں
دل کی ہر ایک تمنا پہ مٹے جاتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو بے موت مرے جاتے ہیں
زندگی کا نہیں ارماں پہ جئے جاتے ہیں
یعنی جینے کا تکلف سا کئے جاتے ہیں
کوئی کچھ کہتا رہے وہ نہیں سننے کے اسے
شیخ صاحب تو بس اپنی ہی کہے جاتے ہیں
اس زمانہ میں یہ منظر بھی نظر سے گزرا
اپنے ہی دام میں صیاد پھنسے جاتے ہیں
عقل پُر پیچ تو ہے چون و چرا کی خوگر
عشق میں فیصلے سب دل سے کئے جاتے ہیں
ہائے کیا کہئے کہ جو نازشِ محفل تھے نظرؔ
ایک اک کر کے وہ محفل سے اٹھے جاتے ہیں
٭٭٭