وفا داریوں پر وفا داریاں ہیں
ہماری طرف سے یہ تیاریاں ہیں
زمانہ کی کیا کیا ستم گاریاں ہیں
نئی سے نئی اس کی عیاریاں ہیں
خلش، آہ و آنسو، فغاں، درد و حسرت
محبت میں ساری ہی بیماریاں ہیں
یہ جنت، یہ نہریں، یہ غلماں، یہ حوریں
مداراتِ مؤمن کی تیاریاں ہیں
نکالو زکوٰةِ محبت میں جاں کو
کہ اس تک ہی ساری دل آزاریاں ہیں
بہ آہِ سحر کر انہیں شعلہ ساماں
جو ایماں کی باقی یہ چنگاریاں ہیں
نظرؔ کو نہیں جب سے عرفانِ منزل
اِدھر کی، اُدھر کی، اسے خواریاں ہیں
٭٭٭