چہار سمت سے رقصاں ہوائیں کیا کیا ہیں
نظارہ خوب ہے چھائی گھٹائیں کیا کیا ہیں
بہ بارگاہِ خدا التجائیں کیا کیا ہیں
مریضِ ہجر کے حق میں دعائیں کیا کیا ہیں
فراق و کرب، غم و التہاب و بیتابی
بہ جرمِ عشقِ بتاں اف سزائیں کیا کیا ہیں
ہماری لغزشِ پا کا بہت ہی امکاں ہے
کہ فتنہ ہائے حسیں دائیں بائیں کیا کیا ہیں
کوئی شمار کرے گر شمار کر نہ سکے
خدا کی بندوں کو اپنے عطائیں کیا کیا ہیں
کوئی ورق بھی تو سادہ نہیں خدا کی پناہ
ہماری فردِ عمل میں خطائیں کیا کیا ہیں
کچھ ایک دو تو نہیں آپ سے ہمیں شکوے
ہٹائیں بھی اب، کیا بتائیں کیا کیا ہیں
نہ آئے تھے تو تعفن سے پُر زمانہ تھا
وہ آ گئے تو معطر فضائیں کیا کیا ہیں
جو سیدھی راہ ہے چلنا ہے مستقل اس پر
رکاوٹوں کو نہ خاطر میں لائیں کیا کیا ہیں
ضیاعِ جاں کا بھی خطرہ ہے صرفِ زر کے سوا
رہِ خدا میں نظرؔ ابتلائیں کیا کیا ہیں
٭٭٭