خرابِ عشق کیا دل لگی کے پردے میں
یہ دل عدو ہی بنا دوستی کے پردے میں
سمیٹتے ہیں جو زر بے زری کے پردے میں
ہزار عیش کریں مفلسی کے پردے میں
ہزار غم تھے جو اک سر خوشی کے پردے میں
چھلک پڑے ہیں کچھ آنسو ہنسی کے پردے میں
ہے اس کی یاد مرے دل کی ظلمتوں میں نہاں
خوشا چراغ کہ ہے تیرگی کے پردے میں
جنابِ شیخ کے بارے میں عام شہرت ہے
ہزار عیب کریں بندگی کے پردے میں
تمام اہلِ بصیرت ہیں متفق اس پر
خدا شناسی ہے خود آگہی کے پردے میں
کہاں سے عظمتِ دیرینہ اپنی دکھلائیں
چھپی پڑی ہے وہ چودہ صدی کے پردے میں
لباسِ شرم اتارے تو پھر بشر یہ کہاں
بشر بشر ہے نظرؔ شرم ہی کے پردے میں
٭٭٭