سادہ ورق نہ تھا مری فردِ گناہ میں
ڈھانپا ہے پھر بھی دامنِ رحمت پناہ میں
عزمِ سفر کوئی ہے نہ منزل نگاہ میں
اب کارواں ٹھہر ہی گیا جیسے راہ میں
خود ہے اسیرِ حلقۂ شام و پگاہ میں
انساں کا ہاتھ کب ہے سپید و سیاہ میں
رک جائے سیلِ اشکِ رواں تھوڑی دیر کو
تصویر کھنچ رہی ہے کسی کی نگاہ میں
نغمہ سرائیاں ہیں مزامیر و رقص بھی
کیا کچھ نہیں ہے شیخ کی اس خانقاہ میں
اپنوں کے خون کا بھی نہیں اعتبار کچھ
پھینکا تھا کس نے یوسفِ کنعاں کو چاہ میں
اے بے بصر تلاش تجھے اس کی ہے یہاں
دل کا سکوں نہیں ہے زر و عزّ و جاہ میں
تولوں تو کائنات بھی پاسَنگ ہے نظرؔ
میزان وہ ملی ہے مجھے لا الٰہ میں
٭٭٭