تو ہے خوش اور سوگوار ہوں میں
غم کو فی الوقت سازگار ہوں میں
پائمالِ خزاں ہوں اب ورنہ
روحِ افسانۂ بہار ہوں میں
میکدہ سے نکل گیا خود ہی
بد نصیب ایسا بادہ خوار ہوں میں
کون واقف ہے میرے رازوں سے
آپ ہی اپنا رازدار ہوں میں
میں ہنسی اپنی روک لیتا ہوں
واقفِ جورِ روزگار ہوں میں
بخش دے مجھ کو اپنی رحمت سے
اپنے عصیاں پہ شرمسار ہوں میں
اس سے ملنے کی ہے نظرؔ امید
پھر یہ کیا ہے کہ بے قرار ہوں میں
٭٭٭