نام ان کا ہر گھڑی وردِ زباں رکھتا ہوں میں
ہر نفس کو مشکبو، عنبر فشاں رکھتا ہوں میں
گرمیِ محشر سے سامانِ اماں رکھتا ہوں میں
سایۂ دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں
آرزوئے دعوتِ برقِ تپاں رکھتا ہوں میں
شاخِ ہر گل پر بنائے آشیاں رکھتا ہوں میں
میں نہیں، ہاں میں نہیں شائستۂ منزل ابھی
دل میں صد اندیشۂ سود و زیاں رکھتا ہوں میں
کافری شیوہ مرا، فطرت مسلمانی مری
یاد ان کی سو بتوں کے درمیاں رکھتا ہوں میں
موج زن ہو کر نظرؔ آئے نہ تو امرِ دگر
دل میں ورنہ غم کا اک سیلِ رواں رکھتا ہوں میں
٭٭٭