سمجھا ہے تو کہ خوش ہیں عنادل بہار میں
محسوس مجھ کو درد ہے صوتِ ہزار میں
سو رنگ بھر گئے ہیں دلِ شرمسار میں
تصویر کس کی ہے نگہِ اشکبار میں
در اصل ہاں وہی تو غریب الدیار ہے
جس کا کہ جی لگے نہ خود اپنے دیار میں
وعدوں کے اعتبار کا ایسا یقیں کہاں
جیسا یقینِ شک ہے مجھے اعتبار میں
کیا کیا ہوا بہار میں بتلائیے مجھے
موقف مرا جنوں کا رہا ہے بہار میں
اب ایک ایک دشمنِ جاں ہو گیا مرا
حق بات کہہ گیا تھا نظرؔ میں ہزار میں
٭٭٭