سنہرے خواب کی لازم نہیں اچھی ہوں تعبیریں
کہ بنتے بنتے دیکھا ہے بگڑ جاتی ہیں تقدیریں
بیانِ غم کی تمہیدوں میں چشمِ خونچکاں میری
کتابِ دل کے دیباچے میں خوں آلودہ تحریریں
وہ یزداں ہے تو برسائے گا رحمت کی گھٹا پھر بھی
ہم انساں ہیں تو ہوتی ہی رہیں گی ہم سے تقصیریں
جنونِ پختہ کاراں کو نہیں تحریک کم ظرفو
جنونِ خام کو دکھلاؤ تم سونے کی زنجیریں
غم و اندوہ، یاس و رنج وحِرماں، درد و بیتابی
یہی ہوتی رہی ہیں آج تک اس دل کی تفسیریں
ادب گاہِ محبت میں نظرؔ کچھ سوچ کر جانا
بغیرِ جرم بھی ملتے یہاں دیکھی ہیں تعزیریں
٭٭٭