سامنے آ سکے نہ جو بزم کو جگمگائے کیوں
رخ پہ نقاب ڈال کر جلوۂ رخ دکھائے کیوں
خار کی ہر چبھن پہ اب کرتے ہیں ہائے ہائے کیوں
کس نے کہا تھا آپ سے سیرِ چمن کو آئے کیوں
پالے جو اتنی آرزو کھائے بھی زخمِ آرزو
دل کی ہر ایک آرزو آدمی کی بر آئے کیوں
عشق کیا، کیا کرے جیسا کیا ہے خود بھرے
دل میں لگی ہے آگ جو آنکھ اسے بجھائے کیوں
عہدِ الست کو نبھا پہلو تہی نہ کر نظرؔ
عہد جو کر لے آدمی اس کو نہ پھر نبھائے کیوں
٭٭٭