عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں
بذکرِ حور للچایا گیا ہوں
بنی ہے تب مسلماں کی سی صورت
جب انگاروں پہ تڑپایا گیا ہوں
تصور سے بنایا پیکرِ گِل
کہاں تھا میں کہاں لایا گیا ہوں
خودی کی جستجو اللہ توبہ
بہت کھویا تو کچھ پایا گیا ہوں
پریشانی مرے دل کی یہی ہے
خرد کے ساتھ الجھایا گیا ہوں
اُسی صورت اٹھا مٹی میں مل کر
میں کس مٹی کا بنوایا گیا ہوں
نہیں میں واقفِ شہرِ خموشاں
نظرؔ پہلی دفعہ لایا گیا ہوں
٭٭٭