ہر متاعِ زندگی پر اف مٹا جاتا ہے دل
بہرۂ عقبیٰ سے بے بہرہ ہوا جاتا ہے دل
زندگی سے زندگی بھر پھر مٹایا کیجئے
ایک ہی لحظہ میں وہ فتنہ اٹھا جاتا ہے دل
یہ اگر سچ ہے تو پھر ویرانیوں کا کیا سبب
سنتے ہیں ہم مستقر تیرا کہا جاتا ہے دل
عاقبت اندیش کی نا عاقبت اندیشیاں
پہلے کیا تھا اور اب کیسا ہوا جاتا ہے دل
شوق کی منزل میں ظالم چال مجھ سے چل گیا
مجھ کو آگے کر کے خود پیچھے ہٹا جاتا ہے دل
جب کسی گم کردۂ منزل کی چھڑ جاتی ہے بات
یک بیک اپنا بھی اس دم یاد آ جاتا ہے دل
کون ہے ہر پردۂ ہستی میں پنہاں اے نظرؔ
جس کی جانب خود بخود اپنا کھنچا جاتا ہے دل
٭٭٭