عمر اک چاہیے وا چشمِ بشر ہونے تک
یعنی من جملۂ اربابِ نظر ہونے تک
مری عظمت، مری سطوت، مری قوت، سب کچھ
سید کون و مکاں کا سگِ در ہونے تک
زندگی ایک سفر طول و طویل و پُر خار
آبلہ پائیاں اُف ختمِ سفر ہونے تک
بخش دینا ترا شیوہ ہے مرے ربِ کریم
لغزشِ پا مرے ورثہ میں بشر ہونے تک
فکر و آلامِ بشر یہ نہیں کم ہونے کے
بندۂ حرص و ہوس، بندۂ زر ہونے تک
اپنی تخلیق میں اعلیٰ یہی انساں اسفل
جاگزیں قلب میں اللہ کا ڈر ہونے تک
قلبِ انجم میں چمک تھی مگر ایسی تو نہ تھی
جیسی پہلو میں رہی میرے سحر ہونے تک
سوزِ غم حضرتِ یعقوبؑ کا اللہ غنی
آنکھیں جاتی رہیں یوسفؑ کی خبر ہونے تک
خستہ جاں، سوختہ دل، آہ بلب ہے امت
یا الٰہی تری رحمت کی نظرؔ ہونے تک
٭٭٭