کوچۂ الفت میں خوفِ آبلہ پائی نہ کر
یا سِرے سے دل میں شوقِ جادہ پیمائی نہ کر
پہلے ہی کیا کم ہے سودا اور سودائی نہ کر
اس تماشا گاہ میں دل کو تماشائی نہ کر
اے خدا میرے گناہوں کی صف آرائی نہ کر
حشر کے دن سامنے سب کے تو رسوائی نہ کر
دشتِ حیرت میں نہ گم ہو دیکھنا یہ دل کہیں
اس قدر اپنے سے بھی پیدا شناسائی نہ کر
بندگانِ رب کے بھی واجب ہیں تجھ پر کچھ حقوق
عمر اے زاہد تو اپنی وقفِ تنہائی نہ کر
ذوقِ سجدہ کے لئے کافی ہے اس کا آستاں
ہر کسی کے آستاں پر ناصیہ سائی نہ کر
سروری تو زیب دیتی ہے فقط اللہ کو
اے کہ تو بندہ ہے خود بندوں پہ آقائی نہ کر
اے نظرؔ کچھ چاہئے مقصد سے بھی وابستگی
خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی نہ کر
٭٭٭